ہم پر واجب حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہم پر مال ودولت دے کر سونپا ہے، والدین حسن سلوک اور مال ودولت کے زیادہ حق دار ہیں پہلے ان پر خرچ کیا جائے، پھر قرابت داروں پہ خرچ کیا جائے۔
اسی طرح رشتہ داری میں کوئی عورت یا بچہ ہے جس کے پاس گزر اوقات کے لیے سامان موجود نہیں ہے اور کمانے پر بھی قدرت نہیں ہیں ، اسی طرح جو رشتہ دار اپاہج یا اندھا ہو اور اس کی ملکیت میں اتنا مال ودولت نہیں ہو جس سے اس کا گزارہ ہو سکے تو ایسی صورت میں جو رشتہ دار مالی وسعت وطاقت رکھتے ہیں ، جو خوش حال اور فارغ البال ہیں ان پر ان سب کا نان ونفقہ فرض ہے اگر رشتہ داری میں کئی لوگ صاحب وسعت ہوں تو سب مل کر ان کے نان ونفقہ کا انتظام کریں ۔
قرآن کریم میں مختلف مقامات پہ، مختلف انداز میں والدین کے بعد قرابت داروں پہ مال ودولت خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ﴾ (الروم: ۳۸)
’’قرابت دارکو اس کا حق ادا کرو۔‘‘
نیز ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی﴾ (البقرہ: ۱۷۷)
’’اور وہ شخص جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں کو دے۔‘‘
نیز اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ (البقرۃ: ۲۱۵)
’’آپ کہہ دیجئے جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کے لیے ہے اور رشتہ داروں کے لیے ہے۔‘‘
اسی طرح اگر قرابت دار سے کوئی غلطی اور قصور سرزد ہوجائے تو اس سے کبیدہ خاطر
|