سے بنی ہوئی ہے ، جہاں نہ کوئی ساتھی ہوگا اور نہ کوئی غم گسار، تنہائی کا عالم ہوگا ، تو وہاں بے یار و مددگار ہوگا ، کیا تونے کبھی اس بات پہ غور کیا ہے کہ وہاں ہم کن چیزوں کی وجہ سے کامیاب ہوں گے اور مرنے کے بعد کن چیزوں کی وجہ سے آرام وراحت میں رہیں گے ، میرے بچے! وہ نیک اعمال ہیں جو ہمارے ساتھ جائیں گے، دنیاوی تما م چیزیں یہیں رہ جائیں گی، ان کا وارث کوئی اور ہوجائے گا لیکن تمہارے ساتھ صرف تیرے کیے گئے نیک اعمال ہی جائیں گے، تو کیوں تم اتنی محدود زندگی کے پیچھے بھاگ رہے ہو، آخرت کی زندگی جس کے بعد دوبارہ موت نہیں آئے گی، وہ ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہوگی ، قیامت کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا ، جنت اور جہنم کی زندگی کی کوئی انتہا نہیں ہے، آخرت کی زندگی اور دنیاوی زندگی کا موازنہ کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ دنیاوی زندگی چند دنوں کی زندگی ہے، اگر ہم فرض کریں کہ ہماری اوسط دنیاوی زندگی ساٹھ سالوں کی ہے اور اکثر آدمی ساٹھ سال کی عمر میں فوت ہوجاتا ہے ، ساٹھ سال میں سے تیس سال سونے میں گزرجاتے ہیں ، پندرہ سال عہد طفولیت میں اور باقی پندرہ سال دنیاوی ہوس وخواہش، کھانے پینے اور تجارت ونوکری میں گزر جاتے ہیں ، اب ان اوقات کو اگر بچپنے، سونے اور دنیاوی کاموں میں صرف کردیں گے تو آخرت کے لیے کیا کام کریں گے، بس دانا آدمی وہ ہے جوان ہی اوقات میں دیگر کاموں کی انجام دیہی کے ساتھ ساتھ آخرت کے لیے بھی نیک اعمال کرے۔
اے میرے جگر گوشے! اپنی عمر مستعار کو دنیاوی خواہشات پہ قربان نہ کرو ، یہ ایک دن فنا ہوجائے گی، اپنی تمام خواہشات نفسانی کو کچل دو اور یہ جان لوکہ اللہ نے تجھے جن چیزوں سے بہرہ ور فرمایا ہے قیامت کے دن ان سب کے بارے میں سوال کرے گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ عُمُرِہِ فِیمَا أَفْنَاہُ وَعَنْ عِلْمِہِ فِیمَ فَعَلَ وَعَنْ مَالِہِ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیمَ أَنْفَقَہُ
|