انجام دینے کے لیے ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo﴾
(الأحزاب: ۷۲)
’’ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا، لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھالیا، وہ بڑاہی ظالم و جاہل ہے۔‘‘
یہ عظیم امانت وذمہ داری اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی ہے، اللہ تعالیٰ بندوں کی خلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o﴾ (الذاریات: ۵۶)
’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘
اے میرے بچے! اللہ کی عبادت وبندگی تمہارے اوپر فرض ہے، اس کی ادائیگی سے تم سبکدوش نہیں ہوسکتے، اپنے رات ودن اللہ کی نافرمانی میں نہ گزارو ، دنیاکے یہ لمحات بہت قیمتی ہیں ، وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے، ان اوقات کو نیکی وبھلائی کے کاموں میں لگاؤ، اپنے تمام اقوال وافعال اور ظاہری وباطنی اعمال سے اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوشش کرو، دنیاوی نازونعمت اور وقتی مال ودولت کے پیچھے نہ پڑو، کیونکہ جو شخص ان چیزوں میں مشغول ہوجاتا ہے وہ آخرت سے بے خبر ہوکر زندگی گزارتا ہے اور آخرت کو بہت دور تصور کرتا ہے لیکن جو آخرت کو سامنے رکھ کر زندگی گزارتا ہے وہ اسے بہت قریب دیکھتا ہے اور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرتا ہے۔
اے میرے بچے! قبر کی اس اندھیری کوٹھڑی کو یاد کرو جوکیڑوں مکوڑوں کا گھر ہے، مٹی
|