یہ الگ بات ہے کہ آج کے اس دور میں مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے، ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے باہر کارخت سفر باندھنا ناگزیر ہے، خواہ وہ اپنے گھر سے باہر جانا پڑے یا ملک سے باہر، لیکن اولاد کے اوپر فرض ہے کہ وہ جہاں بھی رہیں وہ اپنے والدین کو نہ بھولیں ، انہیں شکایت کا موقع نہ دیں۔
اے میرے پیارے بیٹے! میرا دل تیرے دیدار کے شوق میں پھٹا جارہا ہے، آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہورہی ہے اور تو باحیات ہے اور اچھی جگہ رزق حاصل کررہا ہے لوگ برابر تیرے حسن خلق ، جود وسخا اور کرم ونوازش کے بارے میں باتیں کرتے ہیں ، کیا اس وقت بھی تیرے دل میں اپنی کمزور وضعیف ماں کے لیے نرمی ورقت پیدا نہیں ہوتی ؟جس کی آنکھ میں تیرے دیدار کے شوق کے سوا کچھ بھی نہیں ، جس کے اعضاء وجوارح مضمحل اور کمزور ہو چکے ہیں ، غم والم کے پہاڑ اس کے سر پہ ٹوٹ رہے ہیں ، ایسے وقت میں نہ آکر تم اس کے دل کے غموں کو دوبالاکررہے ہو، اس کے آنسوؤں کے قطروں میں اضافہ کررہے ہو ، قطع رحمی کا ثبوت دے رہے ہو ۔
اے میرے لاڈلے! دنیاوی زندگی میں اس قدر غرق ہوکر آخرت کو برباد نہ کرلو، باپ جنت کا دروازہ ہے، اس دروازہ کو میٹھی اور اچھی گفتگو اور انشراح صدر کے ساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل کرلو، شاید اللہ کی رحمت سے میں وہاں تجھ سے ملوں ، حدیث کے اندر آیا ہے:
((الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ فَإِنْ شِئْتَ فَحَافَظْ عَلَی الْبَابِ اَوْضِیْعَ۔)) [1]
’’ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے اب اس کے ساتھ بدسلوکی کرکے اسے ضائع کردو یا اس کے ساتھ حسن سلوک کرکے اسے حاصل کرلو۔‘‘
اے میرے بچے! میں تجھے تیری جوانی سے جانتی ہوں ، تیرا دل برابر کسی اجر وصلہ اور
|