میں تمہاری دشمن ٹھہری کہ تو مجھے دیکھ بھی نہیں سکتا ، تم پر میری زیارت اتنی گراں گزرے گی ، کیا کسی دن تیرے معاملہ میں کسی خطا ولغزش کا شکار ہوگئی؟ جس کی تم اتنی سخت سزا دے رہے ہو یا تیری خدمت سے ایک لمحے کے لیے نظریں چرائیں کہ آج تم مجھے خون کے آنسو رولا رہے ہو ، اگر تم مجھ سے اس قدر دوری اختیار کرچکے ہو تو سنو! تمہارے پاس جتنے بچے ہیں اور جس قدر تم ان سے محبت وشفقت کرتے ہو ان میں سے تھوڑا سا حصہ مجھ کو بھی دیدو اور مجھے میرے بعض احسانات کا بدلہ دے دو اور میرے ساتھ احسان کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔
اے میرے لخت جگر! میں تیرے دیدار کی اس قدر مشتاق ہوں کہ تم سے کسی چیز کا مطالبہ بھی نہیں کرتی ، میرے قلب و جگر میں جو بھی ارمان وآرزو ہیں ، بس وہ تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے، دل میں یہ حسرت ہے کہ میں تمہیں ضرور دیکھوں ، اگرچہ تو غضبناک چہرہ ہی لے کر کیوں نہ حاضر ہو۔
(ماں کی ممتا کیا ہوتی ہے اسے وہی لوگ محسوس کر تے ہیں جو بڑھاپے کے ایام گزار رہے ہوں ، اس عمر میں ماں کو سیم وزر ، مال ومتا ع کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی ، اسے اس وقت محض بچوں کا پیار چاہیے، اس عمر میں بچوں سے اسے کافی لگاؤ ہوتا ہے، اس آخری گھڑی میں وہ بچوں کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھنا چاہتی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری دادی (جو اب انتقال کر چکی ہے اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین) ضعیف ہوچکی تھیں ۔ اس وقت میرے والد صاحب اور چچا لوگ گھر ہی پہ رہتے تھے، میرے ابا نے جب سعودی عرب جانے کا ارادہ کیا تو وہ زار وقطار رونے لگی اور کہنے لگی کہ جب میں مرجاؤں گی اس وقت ہی تم باہر جانا ، حتی کہ جب میں جامعۃ الامام ابن تیمیہ چندنبارہ بہار میں پڑھنے کے لیے جارہا تھا اس وقت وہ رونے لگی اور کہنے لگی کہ تم مجھے چھوڑ کر اتنی دور پڑھنے چلے جاؤگے، یہ ہوتی ہے ایک ماں کی ممتا کہ وہ اپنے بچوں کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے دیکھنا چاہتی ہے ،
|