Maktaba Wahhabi

135 - 379
میں مبتلا ہے، یکے بعد دیگرے بیماریاں میری زیارت کرتی ہیں ، پریشانی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہوں ، مشقت کے ساتھ بیٹھتی ہوں لیکن میرا دل برابر تیر ے بارے غمگین رہتا ہے، تم ذرا اپنے دماغ پہ زوردو، سوچو اور سمجھو! تم میرے خون ہو، میرے جگر گوشے ہو، اپنے عہد طفولیت کو یاد کرو ، جب تم ہر چیز کے محتاج تھے، نہ بول سکتے تھے، نہ کوئی چیز اٹھا سکتے تھے، نہ چل سکتے تھے، گویا کہ تم بالکل اندھے ، بہرے ، گونگے اور لنگڑے تھے ، تمہارے اشارات وکنایات سے ہی ماں سمجھ جاتی تھی کہ میرے لاڈلے کو فلاں چیز کی ضرورت ہے، ماں تمہارے آرام وراحت کے لیے اپنی تمام تر خوشیاں قربان کردیتی تھی ، خود بھوکی رہتی اور تجھے کھلاتی تھی، رات بھر جاگ کر تجھے سلانے کی کوشش کرتی ، جب تجھے کوئی تکلیف ہوتی تو میں بے چین ہوجاتی تھی ، جب تک تمہاری تکلیف دور نہ ہوجاتی مجھے چین وسکون نہیں آتاتھا، لیکن جب کہ تم اپنی زندگی خوش وخرم گزار رہے ہو، کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ جس نے اپنے خون جگر سے سینچ کر تمہیں اتنا بڑا کیا وہ کس حالت میں ہے، جب تم اس کے محتاج تھے توخوب اس سے محبت کرتے تھے اور اب جب کہ وہ تمہاری محتاج ہے توتم اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیے ہو ، تمہیں اپنی زندگی کا خود تجربہ ہے اگر تمہارے ساتھ کوئی آدمی احسان کرتاہے تو تمہاری زبان اس کی تعریف وتوصیف سے تھکتی نہیں ، زندگی بھر اسے فراموش نہیں کرتے لیکن وہ ماں !جس کا تم پر لاکھ احسان ہے، تیری ایک خدمت نہیں بلکہ لاکھ خدمت کی اور سالہاسال تیرا حکم بجالائی، کیا تو اسے احسان اور نیکی نہیں سمجھتا ؟تم خوب سوچو کہ کہاں تک اس احسان اور کرم فرمائی کا صلہ دے رہے ہو اور اپنی محسنہ ماں کے ساتھ محبت اور وفاداری برت رہے ہو، میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم ایک پتھر دل انسان بن جاؤگے، خود غرض بن جاؤگے، دنیا کی رنگینیوں میں کھوکر مجھے بھلادوگے۔ اے میرے لاڈلے! جب مجھے خبر ملی کہ تم اچھی زندگی بسر کررہے ہو تو میری خوشی کا ٹھکانا نہ رہا لیکن یہ سوچ کر محو حیرت ہو گئی کہ کو ن سی خطا وگناہ مجھ بدنصیب سے سرزد ہوگئی کہ
Flag Counter