میں ان کی وجہ سے شرمندگی وسبکی نہ اٹھانی پڑے ۔
اے میرے لاڈلے! میں نے تیری شریک حیات کے انتخاب میں بہت ہی تگ ودو اور جانچ پڑتال سے کام لیا اور جستجو کے بعد ایک چاند سی بہو ڈھونڈ نکالی اور دیکھتے ہی دیکھتے تیری شادی کا دن آگیا اور بہت ہی دھوم دھام سے تیری شادی ہوگئی اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چاند سی دلہن گھر کی زینت بن گئی، تیری نئی زندگی سے بہت خوشی ہوئی، دل باغ باغ ہوگیا لیکن میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ شادی کے بعد تم اس قدر بدل جاؤگے، مجھ سے کنارہ کشی اختیار کرلوگے ، مجھ سے جدا ہوجاؤگے اور مجھ سے بے توجہی برتو گے، اس جدائی اور بے توجہی کی وجہ سے میں بہت غمگین اور افسردہ ہوں ، دن ورات تکلیف کے ساتھ گزر رہے ہیں ، برسوں کی خوشیاں غموں میں بدل گئی ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ تو اس وقت میرا وہ لاڈلا نہیں ہے جسے میں صدیوں سے جانتی ہوں ، تیری مسکراہٹیں میری آنکھوں سے اوجھل ہوچکی ہیں اور تیری آوازیں بھی میری کانوں سے غائب ہوچکی ہیں ، تیری زندگی ہم سے دور ہوچکی ہے، تم مجھ سے منہ موڑ چکے ہو، میرے حقوق جو تم پر عائد ہوتے ہیں اسے بھول گئے ہو، تم مجھے بھول چکے ہو لیکن میں تمہیں روزانہ یاد کرتی ہوں تمہاری آوازیں سننے کے لیے بے تاب رہتی ہوں ، روزانہ میری نظریں دروازے پہ ٹکی رہتی ہیں کہ آج تم آؤگے لیکن نہیں آتے۔ کان ٹیلی فون کی طرف لگے رہتے ہیں کہ شاید تم بات کروگے ، دن ورات انہی وسوسوں اور خیالوں میں گزرتے ہیں ، روزانہ سورج طلوع ہوتاہے، دن آتا ہے، شام ہوتی ہے اور رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے، یہ دن رات کی تبدیلی ، شام وسحر کا آناجانا، چڑیوں کا چہچہانا، بادل کا گرجنا ، ہاتھی کا چنگھاڑنا، گھوڑے کا ہنہنانا ، سب کچھ سنتی ہوں اور دیکھتی ہوں لیکن میں نہ تجھے دیکھتی ہوں اورنہ تمہاری آوازیں سنتی ہوں ، تم مجھے بالکل فراموش کرچکے ہو حالانکہ روزانہ میں تیری راہیں تکتی ہوں ۔
اے میرے بیٹے! میری پیٹھ جھک گئی ہے، جسم میں کپکپی پیدا ہوگئی ہے، پورا جسم مرض
|