سے شفقت ومحبت سے پیش آتے ہیں لیکن جب جوان ہوجاتے ہیں اور والدین کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو ان کے احسانات فراموش کر بیٹھتے ہیں اور یوں ہی نہیں بلکہ انہیں برا بھلا کہنے لگتے ہیں ، لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں ، کتنی ہی ایسے نالائق و ناہنجار اور بے شرم وبے حیا اولاد ہیں جو اپنے والدین کو بسا اوقات مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صحیح سمجھ دے، والدین کو برا بھلا کہنا حتی کہ اف تک کہنا بھی سخت منع ہے چہ جائیکہ انہیں سب وشتم کا نشانہ بنایا جائے جو کبیر ہ گناہوں میں سے ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مِنَ الْکَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ قَالُوا یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَہَلْ یَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ قَالَ نَعَمْ یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ وَیَسُبُّ اُمَّہٗ فَیَسُبُّ اُمَّہٗ۔)) [1]
’’آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول !کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہاں ! بایں طور کہ وہ کسی آدمی کے باپ کوگالی دیتا ہے تووہ بدلہ میں اس کے باپ کو گالی دیتاہے اور وہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کوگالی دیتا ہے ۔‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ اگر انسان ماں باپ کے حقوق کو پہچان لے اور پوری زندگی ان کے حقوق ادا کرتا رہے تو پھر بھی ان کا حق ادا نہیں کرسکتا ہے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک بار ایک یمنی آدمی کو دیکھا کہ اپنی پیٹھ پر اپنی ماں کو لیے ہوئے طواف کرارہا ہے، اس نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا اے ابن عمر ! کیا میں نے ماں کا بدلہ ادا کردیا؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا نہیں ! ماں کی ایک آہ کا بدلہ بھی نہیں ادا ہوا ،
|