Maktaba Wahhabi

124 - 379
اِِلَیْکَ وَاِِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِہِمْ فِیْ اَصْحٰبِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَo ﴾ (الأحقاف:۱۵-۱۶) ’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا، اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا توکہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجالاؤں جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہوجائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتاہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال تو ہم قبول فرمالیتے ہیں اور جن کے بد اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں ، (یہ) جنتی لوگوں میں ہیں ، اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتاتھا۔‘‘ دوسری حدیث میں ماں کے سا تھ خاص طور سے حسن سلوک کی بہت اہمیت اور تاکید ہے۔ بہز بن حکیم نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میرے دادا (معاویہ بن صدہ) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :اے اللہ کے رسول! ((مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ أُمَّکَ ، قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ أُمَّکَ ، قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ أُمَّکَ، قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ ثُمَّ أَبَاکَ ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ۔))[1] ’’اے اللہ کے رسول میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ
Flag Counter