Maktaba Wahhabi

120 - 379
بچوں کی نذر کر دیتا ہے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل سے خوش ہوتاہے، ان کے کھانے پینے اور لباس و پوشاک کا انتظام کرتا ہے، ان کے تمام اخراجات بخوشی برداشت کرتا ہے، پچپن سے لے کر بلوغت تک ان کے تمام ناز ونخرے برداشت کرتا ہے، تعلیم وتربیت کا خاص اہتمام کرتا ہے، انہیں لائق اور سلیقہ مند انسان بنانے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے، بلکہ وہ جو کچھ کماتا ہے اور جمع کرتا ہے اس کے مرنے کے بعد بچے ہی اس کے مال وجائداد کے وارث ہوتے ہیں ، تو بھلا وہ ماں وباپ جو اپنی ساری زندگی بچوں کی آرام وراحت اور تربیت وپرداخت میں صرف کردیتے ہیں اور ہر طرح کے احسانات بچوں پہ کرتے ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ بچے بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں ، بچے اپنے عہد طفولیت میں اس عمر اور پوزیشن میں تھے کہ روزانہ ان میں تقویت ہوتی تھی، عمر میں اضافہ ہوتا تھا، اعضاء و جوارح میں مضبوطی آتی تھی، عقل ودانش میں بالیدگی ہوتی تھی، یعنی بچوں کے حالات اس درخت جیسے تھے جو روزانہ بڑھتا ہے ، یہاں تک کہ ایک تناور درخت بن جاتا ہے لیکن جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جاتے ہیں تو اس وقت روزانہ ان کی کمزوریاں بڑھتی جاتی ہیں جس کی تلافی کی امید نہیں ہوتی ، بڑھاپے کے حالات عہد طفولیت کے بالکل برعکس ہوتے ہیں ، طاقت وقوت جواب دے بیٹھتے ہیں ، قوت سامعہ اور قوت باصر ہ بھی جدائی اختیار کر لیتے ہیں ، پکڑنے کی طاقت ختم ہوجاتی ہے، پیروں میں لرزش وارتعاش پیداہوجاتاہے، اعضاء وجوارح مضمحل ہوجاتے ہیں ، عقلی اور ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں ، مزاج میں چڑچڑا پن اور ترشی پیدا ہوجاتی ہے، یہ اوقات اس بات کے متقاضی ہیں کہ بچے اپنے والدین کے ساتھ وہی سلوک کریں جو والدین ان کے ساتھ بچپنے میں کرتے تھے، بلکہ ہمیں ان سے بھی زیادہ حسن سلوک اور خدمت کرنی ہے اور ان کے ساتھ اس قدر الفت ومحبت سے پیش آنا ہے کہ انہیں کبھی اف تک نہ کہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ قَضٰی رَبُّکَ اَ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ
Flag Counter