نہیں کیا جاسکتا، بچے کی دیکھ ریکھ اور پرورش وپرداخت میں والدین جن تکلیف دہ مراحل سے گزرتے ہیں اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب انسان خود کسی کا باپ بنتا ہے اور یہ مقولہ ((کَمَا تُدِیْنُ تُدَانُ )) [1] ’’جیسا کروگے ویسا ہی پاؤگے۔‘‘ جس کے ساتھ جیسا سلوک کروگے دوسرے بھی تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے۔
اگر ہم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرتے ہیں تو مستقبل میں ہمارے بچے بھی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے ۔
والدین کے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے الفت ومحبت ، شفقت وہمدردی، لطف ونرمی، ادب واحترام، خوش اخلاقی وخوش مزاجی، انشراح صدر او ر بشاشت کے ساتھ پیش آیا جائے، ان سے کبھی اونچی اور بلند آواز سے باتیں نہ کی جائے ، ان کے سامنے کبھی غصہ اور ناراضگی کا اظہار نہ کیا جائے، تلخ کلامی اور ترش روی سے ہم کلام نہ ہوا جائے، ان سے باتیں کرتے وقت آنکھ بھویں نہ چڑھائیں ، آنکھوں سے آنکھیں ملا کر باتیں نہ کریں ، ان کے سامنے اپنی نگاہیں نیچی و پست رکھیں ، میٹھی اور شیرینی باتیں کریں اور جہاں تک ممکن ہو اپنے اخلاق وکردار، عادات واطواراور اپنے اعمال وافعال سے انہیں خوش رکھنے کی سعی پیہم کریں ۔
والدین سن طفولیت سے لے کر سن شعور تک بچوں کی پرورش وپرداخت میں کافی پریشانیوں اورتکلیفوں کا سامنا کرتے ہیں ، ان کی خوشی ومسرت اور آرام وراحت کے لیے اپنی تمام تر خوشیاں قربان کردیتے ہیں ، ماں ساری رات جاگ کر گزارتی ہے، اپنے خون کو دودھ کی صورت میں بچے کو پلاتی ہے، بچے سے اس قدر پیار ومحبت کرتی ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اسے اپنی نظروں سے جدا نہیں کرتی ، تھوڑی سی رونے کی آواز پہ چیخ اٹھتی ہے ، تھوڑی سی تکلیف پہ کراہ اٹھتی ہے ، بچہ خود نہیں بولتا لیکن اس کی حرکات وسکنات سے بھانپ جاتی ہے کہ اسے کس چیز کی حاجت وضرورت ہے، اسی طرح باپ اپنی ساری زندگی کی کمائی اپنے
|