Maktaba Wahhabi

93 - 453
محلہ کی نیندوں کو خراب کرتے ہیں۔ دن کے شوروشغب میں یہ دھماکے کسی کے آرام وراحت میں زیادہ خلل انداز نہیں ہوتے اور ہم اخلاقی پستی کی جس اتھاہ گہرائی میں جاچکے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ جب تک ہم اہل محلہ کے آرام وسکون کو برباد نہ کر لیں ، ہماری خوشی کی تقریب مکمل نہیں ہوسکتی یعنی ہمیں دوسروں کے سکون وآرام کو برباد کرنے میں راحت محسوس ہوتی ہے ، ورنہ جس قوم کی اخلاقی حس زندہ اور بیدار ہو وہ کبھی اتنی اخلاقی پستی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی جس طرح ہماری قوم کرتی ہے۔ رات کے دو بجے بارات واپس آتی ہے تو آتشیں پٹاخوں کے دھماکے سے سارے محلے کے لوگوں کی نیندیں خراب کر دی جاتی ہیں۔ سالہا سال سے اخلاقی پستی کے یہ مظاہر ہم دیکھتے آرہے ہیں، البتہ اب ایک دو سالوں سے (۲۰۱۱۔۲۰۱۲) حکومت پنجاب نے شادی ہالوں کے لیے رات کے ۱۰ بجے تک بند کرنے کی پابندی عائد کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں اصلاح کے کچھ آثار نظر آرہے ہیں اور باراتوں اور ولیموں سے لوگ ۱۱ بجے تک فارغ ہوجاتے ہیں ورنہ اس سے پہلے جو صورت حال تھی وہ ہمارے اخلاقی زوال کی نوحہ کناں تھی۔ علاوہ ازیں رات کی ان تقریبات میں وقت کا جو ضیاع ہوتا تھا وہ بھی ہماری اس قوم کی بے فکری ، بے شعوری اور اخلاقیات سے عاری ہونے کی غمازی کرتا تھا۔ کارڈوں پر ۸ یا ۹ بجے کا وقت لکھا ہوتاتھا لیکن نکاح یا ولیمے کی تقریب کا آغاز رات کے ۱۲ بجے یا ایک بجے سے پہلے نہ ہوتا ۔ ذرا سوچئے! یہ رواج یا عادت یا رسم اچھی ہے یا بری؟ اس میں اخلاقی ذمے داری کا احساس پایا جاتاہے یا اس سے خوف ناک بے اعتنائی ؟ ذرا تصور کیجیے! ان لوگوں کی کوفت، تکلیف اور ضیاع وقت کا جو دعوت نامے کے مطابق وقت پر تشریف لے آتے ہیں لیکن انہیں ان لوگوں کے انتظار میں جو تین یا چارگھنٹے تاخیر سے آتے ہیں ، ۳ یا ۴ گھنٹے انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھا جاتاہے۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ وقت پر آنے والے سزا کے مستحق ہیں یا غیر معمولی تاخیر سے آنے والے؟ لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی رہی ہے۔ کئی کئی گھنٹے تاخیرسے آنے والوں کی سزا، وقت کا ضیاع اور"الانتظار اشد من الموت" کے کرب وقلق کی صورت میں، وقت پر آنے والوں کو بھگتنی پڑتی، ان سب پر مستزادیہ کہ رات کو اتنی تاخیر سے سونے کے بعد فجر کی نمازکے لیے اٹھنا بھی ناممکن سا
Flag Counter