Maktaba Wahhabi

408 - 453
گئی اور میں نے جلد ہی شاد کرلی۔[1] ایک موقع پر ایک لڑکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ان کے چہرے کو موڑ دیا۔[2] ایک شخص نے آکر زنا کی اجازت مانگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی بڑے احسن انداز سے تربیت کی اور فرمایاکہ کیا تم یہ پسند کروگے کہ تمہاری ماں ،بہن اور بیٹی کے ساتھ کوئی اس طرح کا معاملہ کرےاس شخص نے کہا کہ میں یہ پسند نہیں کرتا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہی سوچ دوسرے کی بہن ،بیٹی اور ماں کے بارے میں ہونی چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےسیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :’’لا تتبع النظرۃ النظرۃ ‘[3]یعنی ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھ۔ (اگر اچانک نظر پڑجائے تو اس پر انسان گناہ گار نہیں) ان تمام نصوص سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانوں کو اس گناہ سے بچنے کے لئے مسلسل کس طرح سے تربیت کی جس کانتیجہ تھا کہ آج ہم کسی صحابی کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اس طرح کے گناہ کا مرتکب ہو،بلکہ ایسا سوچناہمارے اسلام کے لئے خطرہ بن جائے گا۔ اوریہی ہمارا کرنے کا کام ہے کہ ہم نہ کہ صرف اس گناہ سے بچنے کی کوشش کریں بلکہ وہ تمام راستے جو زنا کی طرف لے جاتے ہیں،ان سے بھی بچنا ازحد ضروری ہے۔کیونکہ قرآن مجید میں حکم ہے کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔(الاسراء:۳۲) لہٰذا ایسے تمام امور واسباب جو زنا کے قریب لےجاتے ہیں،ان سے دور رہناچاہئے۔سیدنا یوسف علیہ السلام نے جوانی کی عمر میں ہی اپنے آپ کو اس گناہ سے بچایا جس کا تذکرہ رہتی دنیا تک قرآن مجید میں موجود رہے گا۔ بلکہ ایسا شخص جو کبھی ایسی صورتحال بن جانے کے باوجود کہ ایک خوب صورت اور حسب و نسب والی عورت اسےگناہ کی دعوت دے اور وہ خود کو اس گناہ سے بچالے ،اس کا صلہ یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوگا۔[4]
Flag Counter