Maktaba Wahhabi

373 - 453
اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں؟! یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کو ان کے والد کی مار سے بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران ابوبکر غصّہ کی حالت میں گھر سے نکل گئے۔ ابوبکررضی اللہ عنہ کونکلتے دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: کیا خیال ہے؟ میں نے تمہیں اس شخص (الرجل)سے بچایا کہ نہیں؟ راوی کہتے ہیں کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کچھ دنوں تک ناراض رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حاضر ہوکر اندر آنے کی اجازت چاہی، گھر جاکر محسوس کیا کہ آپ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین صلح ہوچکی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ: ’’ آپ دونوں مجھے اپنی صلح میں شامل کرلیجیے،جس طرح آپ دونوں نے مجھے اپنے جھگڑے میں شامل کیا تھا، تو آپ نے فرمایا کہ: جی ہاں آپ کو صلح میں شامل کرلیا ۔ (اس حدیث میں ابوّت کے رشتہ کے حامل بزرگ جناب ابوبکررضی اللہ عنہ کو محض (الرجل) کہنے سے جو مزاح پیدا ہوتا ہے، اسے کوئی بھی شخص محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا)۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غزوہ تبوک میں حاضر ہوا، جب کہ آپ چمڑے سے بنے سائبان میں قیام پذیر تھے۔ میں نے سلام کیا، تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا آجاؤ میں نے عرض کیا: پورا کا پورا آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں پورا کاپورا۔ (جگہ کی قلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان صحابی رضی اللہ عنہ نے جس محبت کے ساتھ مزاح کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمالِ اخلاق مندی سے انہیں کے مزاحیانہ اسلوب میں جواب دیا)‘‘ ۔[1] مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھی مزاح کی نہ صرف گنجائش ہے، بلکہ مستحسن ہے اور اسوہ نبوی کی اتباع ہے،لیکن اگرمزاح دوسرے آدمی کے لیے ناگواری اور اذیت کا باعث بن جائے، یا حد سے زیادہ ہنسی کا ذریعہ بن جائے یا مزاح کا عمل کبھی کبھار کے بجائے کثرت سے ہونے لگے، تو ایسے مزاح کی ممانعت ہوگی اور اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
Flag Counter