Maktaba Wahhabi

357 - 453
تمدن اس وقت تک زندگی اور تخلیقی صلاحیت سے بھرپور تھا ، اس کے سینہ میں پوری دنیا کوفتح کرلینے اور تمام اقوام عالم کو اپنے زیر نگیں لے آنے کا حوصلہ موجزن تھا ،چنانچہ یہ روشن اور تابناک پہلوان کو مغربی تمدن و معاشرہ کے تاریک اور کمزور پہلو کی طرف توجہ کرنے سے باز رکھتا رہا ، اخلاق و روحانیت کے فقدان ، تکبر اور قومی انا نیت نے انگریزوں کو جس طرح ایک بین الاقوامی جرائم پیشہ قوم بنا دیا تھا اور خود ہندوستان میں اس کا جس طرح ظہور ہوا تھا یہ حقیقت اور پہلو ان کی نگاہ سے اوجھل رہا۔ سر سید اس تہذیب اور معاشرہ سے اس طرح متاثر ہوئے کہ ان کے دل و دماغ ، اعصاب اور ساری فکری صلاحتیں اس سے وابستہ ہوگئیں ۔ 12اکتوبر 1870 میں وہ اس تہذیب کے گرویدہ اور ہندوستان کی مسلم سوسائٹی میں ان اقدار اور اصولوں کی بنیاد پر اصلاح و تغیر کے پر جوش داعی اور مبلغ بن کر اپنے ملک واپس ہوئے اور پورے خلوص اور گر م جوشی کے ساتھ انہوں نے اس تحریک و دعوت کا علم بلند کیا اور اپنی ساری صلاحیتیں اور قوتیں اس کے لیے وقف کردیں ۔ سر سید احمد خان انگریزوں سے اس طرح متاثر ہوئے جیسےکوئی مغلوب غالب سے ، یا کوئی کمزور طاقتور سے متاثر ہوتا ہے انہوں نےشخصیطور پر انگریزی ثقافت ا ور طرز معاشرت کو اختیار کیا اور دوسروں کو بھی بڑی گرم جوشی اور قوت کے ساتھ اس کی دعوت دی ۔ ان کا خیال تھا کہ اس ہم رنگی ، حاکم قوم کی معاشرت و تمدن اختیار کرنے اور ان کے ساتھ بے تکلف رہنے سے وہ مرعوبیت ، احساس کمتری اور احساس غلامی دور ہوجائے گا جس میں مسلمان مبتلا ہیں اور حکام کی نظر میں ان کی قدر و منزلت بڑھ جائے گی اور وہ ایک معزز مساوی درجہ کی قوم کے افراد معلوم ہونے لگیں گے یہ خیال اور یہ نقطہ نظر ان کے بعض مضامین میں بہت صفائی کے ساتھ ملتا ہے ۔ ’’ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ سولیزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ جس حقارت سے مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب کہلائیں ‘‘ اپنے رسالہ ’’احکام طعام اہل کتاب ‘‘ میں کھانے پینے میں انگریزوں کا طریقہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے عربی میں لکھتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے : ’’پس اے مسلمانو!اس پر عمل کرو ، خود پسندی اور تکبر کی نیت سے نہیں بلکہ اس نیت سے کہ
Flag Counter