ثقافتی یلغار وں سے امت مسلمہ بچ چکی تھی مثال کے طور پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو اس کے بالمقابل دنیا کی دو قدیم و عظیم تہذیبیں تھیں ایک مغرب کی یونانی تہذیب ، دوسری مشرق کی ایرانی تہذیب ، دونوں تہذیبیں قدیم دنیا کے علوم وفنون ، ثقافت و ادب فلسفانہ نظاموں کے ذخیرے اورتمدن و معاشرت کے ترقی یافتہ طریقوں سے مالامال تھیں ۔ اسلامی معاشرے نے جو ہر طرح کہ احساس کمتری سے محفوظ اور خودشناسی اور خود اعتمادی کی دولت سے بھر پور تھا، بغیر کسی ذہنی غلامی کے اپنی ضرورت اور اپنے حالات کے مطابق ان ذخیروں سے استفادہ کیا، جس چیز کو مناسب سمجھا اس کو پہلے اپنے سانچے میں ڈھالا پھر اس کو اپنی صحیح جگہ فٹ کیا آزاد اور غالب ہونے کی بنیاد پر یہ استفادہ اور اقتباس اس معاشرے کی روح اور اس کے اخلاقی رجحان پر اثر انداز نہ ہوسکا ۔ دوسرا تجربہ وہ تھا جو اسلامی معاشرے کو ساتویں صدی میں اس وقت پیش آیا جب تاتاریوں نے عالم اسلام کے مرکزی حصہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمان سیاسی طور پر ان کے مفتوح اور زیر نگیں ہوگئے اس وقت اسلامی معاشرے کو جس فاتح سے سابقہ پڑا وہ تہذیب و تمدن ۔ علم و فن، قانون و دستور میں بالکل ہیچ تھا ۔ اس کے پاس نہ کوئی تہذیب تھی، نہ کوئی زندگی کا کوئی فلسفہ معاشرت و اجتماع اور ذہنی نشونما کے اعتبار سے وہ اس ابتدائی حالت میں تھا جو صحرائی اور جنگجو اقوام کی ہوا کرتی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مفتوح اسلامی معاشرے کے سامنے فاتح کی تہذیب، معاشرت ، فلسفہ حیات اور افکار واقدار سے متاثرو مستفید ہونے کا کوئی حقیقی سوال نہیں تھا اس کے بر خلاف فاتح قوم روز بروز اپنی مفتوح اقوام سے متاثر ہوتی چلی جارہی تھی وہ بتدریج اپنی مفتوح اقوام کی تہذیب اور اس کے اعلی دین عقائد اور خیالات سے متاثر ہوتی چلی گئی اور بلا آخر اس نے اپنی مفتوح اقوام کا دین اور ان کی تہذیب پورے طور پر قبول کرلی اور ان کے سانچے میں ڈھل کر حرم کی پاسبان اور اسلام کی پر جوش علمبردار اور محافظ بن گئی۔ لیکن مغربی تہذیب کا ماجرا بہت مختلف تھا کیونکہ جب اس تہذیب کی یلغار شروع ہوگئی تو یہ تہذیب اپنی وسیع شکل میں عقائد وخیالات، فکری نظاموں ، سیاسی و اقتصادی فلسفوں ، اجتماعی ، طبعی اور عمرانی علوم نیز ان مخصوص تجربوں کا عجیب و غریب مجموعہ تھا جو مغربی اقوام کو اپنے ارتقا کے طویل سفر کے مختلف مراحل میں پیش آئے تھے ۔ یہ تہذیب عام طور پر علم انسانی اور خالص طور پر طبعی ، میکانیکی اور ریاضی علوم کی ترقی کا ایک ناگزیر مرحلہ اور مفکرین اور ماہرین طبعیات کی مسلسل کوششوں اور تجربات کا نچوڑ اور خلاصہ تھا اس اعتبارسے وہ مختلف اجزاء وعناصر کا ایک ایسا مجموعی تھا جن کے متعلق کوئی یکساں رائے |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |