Maktaba Wahhabi

343 - 453
فرمان باری تعالی ٰہے : [ ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠ ](المائدہ: 2) ’’نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، ااور گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کرو ‘‘ نیکی کا تقاضہ اور تقوی کی علامت یہ ہے کہ گناہ و زیادتی کے کا موں میں کسی کا ساتھ نہ دیاجائے۔ تیسرانقصان : وہ یہ ہے کہ دوسرے تہواروں سے قدرے مختلف ہے وہ یہ کہ احتساب نفس کے بجائے اترانا اور بے پرواہ ہونا۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کی تخلیق کا مقصد اپنی عبادت بجالانابتایا ہے،اور اسی عبودیت کے امتحان لینے کے لیے اس پر کچھ ذمہ داریاں اور فرائض و نواہی سونپے گئے ہیں،اور چونکہ لفظِ عبودیت ، بندگی، عاجزی و انکساری اور تذلل کے ساتھ اپنی خامیوں و نقص کا اقرار اور کمی و کوتاہی کا اعتراف اور نفس میں افراط و تفریط میں پڑنے کے یقین کا مفہوم بھی رکھتاہے لہٰذا فرائض کی ادائیگی اس پر ثابت قدمی اختیار کرنا اللہ ارحم الراحمین کا ہر حال میں شکر اداکرتے رہنا پھر اعمال صالحہ کی قبولیت کی دعااور امید رکھنا ااور اپنے عمل کو ضائع ہونے سے بچانا اور اسی طرح نواہی و منکرات اور مکروہات کے ارتکاب پرہوجانےوالی زیادتی و نقصان پر احتساب نفس کرتے ہوئے توبہ و رجوع کرنا اور کمزور ی نقص پر عاجزی و انکسار ی اور اپنی عملی کوتاہیوں پر فکر مند ہونا اسلام نے اسے ایمان والوں کی علامت و اوصاف قرار دیا ہے جبکہ اس کے برعکس عبودیت (بندگی) کے مفہوم کے منافی عمل نیو ہیپی ائیرمنانے والےلوگوں کا مقصد زندگی کو ضائع کرنا اور وقت کو برباد کرنا اور اپنی جوانی کو لغو اور فضول خواہشات کے پیچھے چلانے اور صحت اورفراغت کو غلط استعمال کرنے پر منحصرہوتا ہے ،یہ تہوار منانے والے کمی و کوتاہی اور نقص و کمزوری کا اعتراف کرنا تو در کنار بلکہ غفلت و لاپرواہی پر اترانے اور ڈھٹائی کے ساتھ فخر کرتے ہوئے اعجاب کا شکار نظر آتےہیں یعنی گزشتہ سال کے بارہ مہینوں میں ہونے والی غلطیوں، برائیوں پر نہ انہیں کوئی پشیمانی ہے نہ ہی نیکیوں میںکمی اور گناہوں میں اضافے پر کوئی ندامت ہے اور نہ ہی اس کے برے انجا م کے ڈر کی کوئی پریشانی ہے اور نہ ہی زندگی کا ایک قیمتی سال کم ہونے اور آخرت کی زندگی کے قریب قریب آنے پر انہیں کوئی غم
Flag Counter