Maktaba Wahhabi

338 - 453
نسبت نے اس کے خبث میں اور اضافہ کر دیا ہے، ایک مسلمان کے لیے اس تہورا کو انتہائی قابل نفرت اور ناقابل تصور ہونا چاہیے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ نام نہاد دانشور، مفکر، سیاست دان اور فنکار اس کو بھی تفریح کا نام دیتے ہیں اور کبھی اسے موسم سے منسوب کرنے کی کو شش لاحاصل کرتے نظر آتے ہیں لہٰذا اس ہندوانہ رسم وتہوار ’’بسنت ‘‘ کو دنیا کی واحد ہندو ازم کی علمبردار ریاست ہندوستان کے اسکولوں کے نصاب میں بطور کہانی کے شامل کیاگیا ہے اور پھر کیوں کر اس تہوار کو مسلمان ہونے کے ناطے منایا جاسکتا ہے؟ جس قوم اور ملک کی طرف یہ تہوار منسوب ہے اس کی تاریخ صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف جنگ ان کی نسل کشی، سازشوں، ظلم و زیادتی اور تباہی و بر بادی بالخصوص قرآن کریم ، شعائر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے بلکہ آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور ناجائز تسلط اور وہاں کے لوگوں کے جان ومال عزت و آبرو کا لٹیرا دشمن پاکستان سے ایک سے زائد جنگیں لڑنے والاہمارے وجود کے خاتمے کے درپے اور بے چین عیار و مکار ہندو ہمیں زمین سے لگائے اور ہم اس کا پھریرا(پتنگ)ہوا میں اڑا کر اس کا گھٹیا تہوار منائیں۔۔۔۔؟ کشمیر و پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں کھلا کھلم خطرناک و ناپاک عزائم رکھنے والا ہمارے خلاف اپنی دولت کو فوجی طاقتکے اضافے اور ہمارے خلاف جنگی مہم جوئی میں خرچ کرے اور فکری شر پسند عناصر ہمیں اپنی دولت کو ان کے تہواروں میں صرف و خرچ کرنے کی باتیں کریں۔ دوسری قباحت :قیمتی جانوں کا ضیاع بسنت جو کہ دوسرے تہواروں و رسموں سے منفرد رکھتی ہے کہ ہر سال سب سے زیادہ جانی نقصان بسنت کے منانے سے ہوتا ہے اور بلا مبالغہ بیسیوں افراد پتنگ کی ڈوریوں بجلی کی گری و ٹوٹی تاروں کے کرنٹ لگنے، چھتوں سے گرنے ،پتنگیں لوٹتے ہوئے گاڑیوں سے ٹکرانے، ٹھوکر لگنے اور دیگر وجوہات کی بنا پرہلاک و زخمی ہو جاتے ہیں۔ لہذا یہ تہوار ہندوانہ و کافرانہ ہونے کے ساتھ ظالمانہ، مجرمانہ، وحشیانہ اور سفاکانہ بھی ہے جس کے منانے سے انسان اپنی اور دوسروں کی جانوں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ ہلاکت میں دھکیلتا ہے جبکہ اللہ
Flag Counter