سامنے آ جاتا ہے۔ دو ماہ قبل میں نے مکہ مکرمہ سعودیہ میں کچھ معزز و محترم بہنوں کو سڑک پر جاتے دیکھا۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے برقعےوغیرہ تقریباً 5یا6 انچ تک زمین پر گھسٹتے چلے جا رہے ہیں اور گندے ہو رہے ہیں۔ میں نے چونکہ پاکستان کا ماحول دیکھا تھا لہٰذادیکھ کر سوچنے لگا کہ ٹھیک ہے‘ مان لیا کہ انہوں نے آنکھوں کا‘ہاتھوں اور پاؤں بلکہ پورے جسم کا بھر پور پرد ہ کر رکھا ہے‘ ان کا ناخن بھی نظر نہیں آ رہا لیکن یہ کوئی مہذب بات تو نہیں کہ اب ان کے برقعے زمین پر مٹی کوڑے وغیرہ میں گھسٹتے جا رہے ہیں۔ شاید یہ جاہل‘ بدُّویا گنوار عورتیں ہیں!!۔۔۔۔۔ میں ایسی باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک میرے دماغ میں ایک جھما کا ہوا‘ میرے دماغ کے پردہ سکرین پر منظر ابھرا کہ چودہ سو سال قبل صحابیات کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لباس میں پردے کا حکم دیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صحابیات طیبات نے اس انداز سے پردہ کرنا شروع کر دیا کہ ان کی چادریں اور اوڑھنیاں زمین پر گھسٹنے لگیں۔ وہ محبوب کائنات سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اورپوچھنےلگیں:آقا! ہم جب بازار میں ضرورت کے تحت نکلتی ہیںتو جس چادر سے ہم نے اپنے پاؤں کو چھپا یا ہو تا ہے وہ گندگی میں زمین پرگھسٹ کر گندی و نا پاک ہو جاتی ہے‘ ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان چادروں کو چھوٹا کر لیں یا اوپر اٹھالیں‘ تا کہ وہ زمین پرگھسٹ کر گندا نہ ہو سکیں۔ تو رسول اللہ نے ان کی یہ شکایت سن کر ان کو سختی سے منع کر دیا اور فرمایا کہ میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا‘ اگر ایک گندی جگہ سے کپڑار گڑ کھا کر گزرتا ہے تو دوسری صاف جگہ پر رگڑ نے سے وہ گندگی صاف ہو جائے گی۔لہٰذاتم انہی کپڑوں‘ چادر و ں اور اوڑھنیوں میں نماز پڑھو‘ میں ان کو چھوٹا کر نے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ جب میرے دل و دماغ میں یہ منظر گھوما تو مجھے بہت شرمندگی ہوئی اور میں نے ان پاکباز معزز و محترم بہنوں کے متعلق غلط خیال دل میں لا نے پر اللہ سے معافی مانگی کیونکہ یہ تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سر زمین کی رہنے والی پاکیزہ دخترا ن اسلام ہیں۔۔۔۔۔ یہ تو صحابیات طیبات کے پاکیزہ و معطراسوہ کو عملی طور پر اپنی زندگی میں اپنا رہی تھیں‘ کہ کوئی ان کے پاؤں ایڑی یاٹخنے کو بھی نہ دیکھ سکے ان کا یوں کپڑا گھسیٹ کر مکہ کے بازاروں میں چلنا تو ان پاکباز صحابیات کی یادوں کو تازہ کرتا ہے جنہوں نے براہ ِراست آقائے دو جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کی تھی واللہ!یہ جاہل بد و اور گنوار عورتیں نہیں بلکہ مو منا ت ‘طیبات‘ محسنات و عابدات اور وہ روشن خیال‘ مہذب پاکیزہ اور معطر و مطہر سیرت کی علمبردار ہیں ۔۔۔۔کہ عالم اسلام تو ان پر فخر کرتا ہے۔میری نادان بہن! کبھی تو نے سوچا ہے کہ پردے کا حکم تجھے کس نے دیا ہے؟ اگر علم نہیں تو سن لے‘ پردے کا حکم تجھے تیرے خالق و مالک رب کائنات نے دیا ہے۔ تو اس کے احکام کی خلاف ورزی کر کے کیا ثابت کر رہی ہے۔ یاد رکھ! اگر تو ڈاکوؤں کے سے روا جی پردے سے جان چھڑا کر اللہ تعالیٰ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |