ہوجاتا ہے، کہ ماں کوایک تہائی اور باقی دوتہائی باپ کو مل جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ میت کے باپ کے ذمے میت کی ماں کی(جوکہ اس کی بیوی ہے) کفالت ہے۔ (2)ورثاء میں میت کی صرف بیٹی اور والدین ہیں۔ایسی صورت میں بیٹی کو نصف اور ماں کوچھٹا حصہ، باقی ماندہ باپ کومل جائے گا جوکہ ثلث بچے گا۔ اور یہاں دگنا دینے میں بھی یہی مصلحت ہے کہ میت کی ماں کا واحد کفیل باپ ہے جوکہ اس کا شوہر ہے شرعاً بیٹی میت کی ماں یعنی اپنی دادی کی کفیل نہیں۔ واضح رہے کہ ایک صورت میں ماں باپ کا حصہ برابر ہوجاتا ہے،جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ باقی تین صورتیں یہ ہیں۔ (1) شوہر کی بیوی کی بہ نسبت دگنا ،اوروجہ بھی واضح ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی اور بچوں کی کفالت بھی ہے۔ (2) میت کی اولاد میں مذکر کو مؤنث کی بہ نسبت دگنا ملے گا۔ وجہ بھی واضح ہے کہ ان بیٹوں پر میت کی بیٹیوں (جوکہ ان کی بہنیں ہیں) کی کفالت کا ذمہ ہے اور ان کی تربیت سے لے کر شادی تک کے معاملات انہیں کے ذمے ہیں۔ (3)میت کے بہن بھائیوں میں بھی باہم تقسیم اسی طرح ہوگی کہ مذکر کو مؤنث کی بہ نسبت دگنا ملے گا،وجہ وہی ہے جو ابھی مذکور ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان پانچ صورتوں میں مذکر کا حصہ مؤنث سے دگنا ہے اور اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ تو لہٰذا اس میں عورت میں کسی قسم کی زیادتی نہیں ،بلکہ اس کے لئے مرد کی بہ نسبت آسانی ہی ہے،کیونکہ وہ اپنے حصے کو چاہے بچائے یا خرچ کرے لیکن مرد پر تو اس کی کفالت لازم ہے اس لئے اس کے لئے بچاکر رکھنا تو مشکل ہے۔ کبھی مرد کے برابر بھی ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر میت کے اخیافی (ماں کی طرف سے بہن بھائی ) کا حصہ ان کے درمیان مذکر و مؤنث میں برابر برابر تقسیم کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر میت کی اولاد میں بیٹے موجود ہیں ،ایسی صورت میں ماں باپ کا حصہ برابر ہوجاتا |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |