(4 ) تنہائی ، اکیلا پن ، اور ادائیگی حقوق میں کوتاہی انٹرنیٹ اور موبائل استعمال کرنے والے افراد عموما تنہائی پسند بن جاتے ہیں ، سوشل ویب سائٹ پر ان کے ہزاروں دوست ہوتے ہیں ، لیکن حقیقی زندگی میں وہ زیادہ میل جول نہیں رکھتے، اولاد کے پاس والدین کے لئے وقت نہیں ہوتا ، وہ سارا دن کمپیوٹر اور موبائل ، لیپ ٹاپ پر گزارتے ہیں، شوہر کے پاس بیوی کے لئے وقت نہیں بچتا، اکثر خواتین یہ شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ ان کے شوہر گھر آکر بھی ان کے لئے وقت نہیں نکال پاتے، ہر وقت لیپ ٹاپ یا موبائل وغیرہ پر مصروف رہتے ہیں ، ان کے پاس اپنی پرائیویسی نہیں رہتی ، کوئی بات کرنی ہو تو کسی نہ کسی کی کال یا میسج آجاتا ہے، باپ کے پاس اپنی اولاد کے لئے وقت نہیں ، بہن بھائی بھی آپس میں زیادہ بات چیت نہیں کرتے، اور یہ سب کچھ صرف اس لئے ہے ، کہ ہر ایک کے پاس کوئی کوئی نہ ڈیوائس ہے ، کسی کے پاس موبائل ہے تو کسی کے پاس لیپ ٹاپ ہے یا پھر ٹی وی تو موجود ہی ہے!۔ ایک سروےکے مطابق برطانیہ میں 1998 تک 12 سال سے کم عمر بچے اپنی ماں کے ساتھ دن میں کم از کم دس مرتبہ بات کرتے تھے ، جبکہ سال 2010 میں یہ گفتگو سکڑ کر صرف پانچ تک رہ گئی ہے، جبکہ امریکا میں تقریبا تیس فیصد بچے ایسے ہیں جو دن میں زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ اپنے والدین سے بات کرپاتے ہیں اور دس فیصد ایسے ہیں جنہیں دو دن میں ایک مرتبہ اپنے ماں باپ سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے، یا تو والدین کی مصروفیت کی وجہ سے یا پھر بچوں کی مشغولیت کی بنا پر!۔ Save Our Children نامی ایک تنظیم کے مطابق اس جدید ٹیکنالوجی نے ایک ایسی نسل کو جنم دیا ہے جو تنہائی کا شکار ہے اور سماجی تعلقات نبھانا نہیں جانتی، اسی طرح اس تنظیم کے تحت ایک سروے کیا گیا جس میں اساتذہ سے سوالات کئے گئے ، اساتذہ میں سے ستر فیصد کا یہ کہنا تھا کہ انٹرنیٹ پر دیر تک اور طویل وقت صرف کرنے سے طلبہ کی سماجی اور تعلیمی سرگرمیاں شدید متاثر ہوتی ہیں۔[1] پاکستان میں بھی یہ حالت کوئی بہت اچھی نہیں ہے، اگرچہ اس حوالہ سے کوئی مستند سروے میرے |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |