ہوگئے ہیں ، یہاں تک کہ بلوغت کے آثار بھی ظاہر ہو چکے ہیں ، جس طرح مرد کا محتلم ہونا اور عورت کو حیض آنا ، غیر ضروری بالوں کا اگنا لیکن ان کی عمریں ابھی 18 سال نہیں ہیں اس لیے ان کی شادی نہیں کرائی جا سکتی کیونکہ یہ ملک کا قانون ہے۔ ایسی صورت میں وہ بچوں کو تباہی کی طرف جاتے دیکھتا رہتا ہے اور شادی نہیں کرا سکتا۔ 2۔ ایک آدمی بیمار ہے اور زیادہ دن زندہ رہنے کی امید بھی نظر نہیں آتی۔ اس کی 15سال کی لڑکی ہے لیکن کوئی بھی وارث نہیں ہے جو بچی کی دیکھ بھال اور پرورش کر سکے اور اگر کوئی وارث ہے بھی صحیح تو اس سے کوئی خیر کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اب یہ والد کسی دیندار اور شریف آدمی سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے تاکہ سکون اور اطمینان سے دنیا سے رخصت ہو سکے لیکن ملک کے قانون کے پیش نظر وہ ایسا نہیں کر سکتا ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ والد کے فوت ہونے کے بعد بچی لاوارث ہو جائے گی یا ظالموں کا شکار ہو کر در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرے گی۔ 3۔ ایک بیوہ عورت ہے اور اس کی ایک بیٹی ہے جو اس کی وارث بھی ہے، عورت کے لیے اپنا پیٹ پالنا اور عزت و ناموس کی حفاظت کرنا بڑا مسئلہ ہے اور دوسر ی طرف لڑکی بھی 16 سال کی ہے اور بالغ بھی، لیکن ملک کے قانون کے مطابق وہ 18 سال سے پہلے شادی نہیں کرا سکتی۔ ایسی صورت میں قوی امکان ہے کہ وہ عورت اور اس کی بیٹی کسی بدمعاش کے ستم کا نشانہ بن جائیں۔ 4۔ یہ قدرتی اور فطری بات ہے کہ بلوغت کے بعد مرد و عورت کی جنسی خواہشات بڑھ جاتی ہیں ، ایسی صورت میں ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے 18 سال سے پہلے شادی کر دینا بہتر عمل ہے یا بےحیائی کو برداشت کرنا؟ خصوصی طور پر دور حاضر میں، جو میڈیا کا دور ہے ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بے حیائی پھیلانے والے پروگرامز نے تو قوم کے اخلاق کا جنازہ نکال دیا ہے ، فحش پروگرامز اور برہنہ تصاویر سے جذبات کو ابھارا جا تا ہے ۔ کیا ایسی صورت میں یہ بہتر نہیں ہے کہ والد لڑکی کے بالغ ہوتے ہی اس کی شادی کا سوچے۔ مذکورہ بالا صورتیں محض فرضی نہیں ہیں بلکہ حقائق ہیں جن سے شاید ہم بے خبر ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جدید تہذیب 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی کی تو مخالف ہے لیکن بلوغت سے بھی پہلے جنسی تعلیمات کی حمایتی!!! |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |