Maktaba Wahhabi

135 - 453
کے لئے باعث برکت ہے‘‘۔[1] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ إذا دخَل الرجل بيته، استُحِبَّ له أن يتَنحنَح ثم يسلِّم‘‘ ’’ اگر کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے کھنکھنائے اور پھر سلام کہے ‘‘۔ اور مذکورہ آیت میں ﴿ فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ ] سے مراد اپنے گھر والوں کو سلام کہو اور اس آیت کے الفاظ میں اگر تدبر کریں تو اللہ تعالی نے یہاں’’ ﴿ أَنْفُسِكُمْ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس میں اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی کسی کے گھر میں داخل ہوگاتواجازت لینے کے لئے سلام کہے گا تو جواباً اسے بھی سلامتی کی دعا نصیب ہوگی اور ساتھ ساتھ وہ کئی قسم کی مکروہات سے بھی محفوظ ہوجائے گا مثلاًجواب یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں وہ کسی ایسی چیز پر نظر ڈالنے سےباز رہے گا جو کہ گھر والوں کے لئے باعث تکلیف ہو یا ان کے ستروعیوب سے آگاہی یا ایسا معاملہ جو کہ دونوں کے لئے اذیت اور تفرق کا باعث بنتاہو ۔تو جس طرح شرعی طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو کئی مکروہات سےسلامت رکھا اور اسی طرح اس نے دوسرے کے گھر کی عفت و عصمت کا بھی احترام قائم رکھا ۔ 2 عزیز و اقارب سے بھی اجازت طلب کی جائے شریعت اسلام نے معاشرے کو جو آداب سکھلائےوہ تمام افراد کے لئے یکساں موزوں ہیں لھذا عزیز و اقارب میں سے اگرکوئی کسی کے گھر میں داخل ہو تو وہ بھی اجازت حاصل کریں چاہے وہ بہن کا گھر ہو، بھائی کا، پھوپھی کا گھر ہو یا خالہ کا ،اس کی کئی حکمتیں ہیں ایک تو آپس کے باہمی تعلقات نیک تمناؤں پر استوار ہوں اور میزبان آنے والے کا استقبال اچھے انداز میں اور باہمی رضامندی سے کرسکیں اور کسی قسم کی عار محسوس نہ کریں اور ایمان اور نیکی سے منور معاشرہ پروان چڑھے جو کہ دوسرےمعاشروں سے ممتاز ہو جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے بھلائی ، خیر اور طہارت و عفت رکھی ہے جو معاشرہ میں ایمان و سلامتی کی حرارت کو زندہ رکھتی ہے ۔
Flag Counter