Maktaba Wahhabi

90 - 645
سوم :....قائل کا قول کہ: ’’اللہ اس بات سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ وہ اپنے بندے پر ظلم کرے اور اس کا ناکردہ فعل پر مؤاخذہ کرے۔‘‘ سو ہم اس کے موجب کا قول کرتے ہیں کہ نہ تو اللہ نے اپنے بندے پر ظلم کیا ہے اور نہ کسی ناکردہ فعل پر اس کی گرفت کی ہے۔ سوائے اس فعل کے جو بندہ اپنے اختیار اور قوت کے ساتھ کرتا ہے نا کہ اس پر جو دوسری مخلوق نے کیا ہے۔ رہا رب تعالیٰ کا ہر شی کا خالق ہونا تو یہ بندے کے ظلم پر ملوم (ملامت زدہ) ہونے کو مانع نہیں ۔ جیسا کہ دوسری مخلوقات اس کے ظلم و عدوان پر اسے ملامت کرتی ہیں ۔ حالانکہ وہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ رب تعالیٰ بندے کے افعال کا خالق ہے۔ اب جمہور امتیں تقدیر کا اقرار کرتی ہیں ۔ اور مانتی ہیں کہ اللہ ہر شی کا خالق ہے اور اس کے باوجود وہ ظالموں کی مذمت بھی کرتی ہیں اور ان کے ظلم و عدوان کو دفع کرنے کے لیے ان پر عقاب بھی کرتی ہیں ۔ جیسا کہ وہ اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں اللہ مضر حیوانات و نباتات کا بھی خالق ہے اور وہ اس اقرار کے ہوتے ہوئے بھی ان نباتات وغیرہ کے ضرر و شر کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پھر سب کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ کاذب و ظالم اپنے ظلم و کذب کی وجہ سے مذموم ہے اور یہ اس میں ایک برا وصف ہے اور یہ کہ ظلم و کذب سے متصف نفس خبیث اور ظالم ہوتا ہے جو کسی ایسے اکرام کا مستحق نہیں ہوتا جو اہل صدق و عدل کے مناسب ہو۔ اگرچہ وہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب مخلوق ہے۔ لوگ اس فطرت پر پیدا نہیں کیے گئے کہ وہ ظالم کے ظلم کا مقابلہ اس پر ظلم کر کے کریں ۔ چاہے وہ تقدیر کے مقر بھی ہیں تب پھر اللہ بدرجہ اولیٰ اس بات کا مستحق ہے کہ ظلم کی اس کی طرف نسبت نہ کی جائے۔ یہ اہل سنت میں سے اہل حکمت و تعلیل کا طریق ہے۔ جبکہ اہل مشیئت و تفویض کے طریق پر ظلم اس کی ذات سے بالذات ممتنع ہے۔ کیونکہ ظلم یہ غیر کی ملک میں تصرف کا یا اپنی ملک سے تجاوز کرنے کا نام ہے اور رب تعالیٰ کے حق میں یہ دونوں باتیں ہی ممتنع ہیں ۔ غرض رب تعالیٰ ہر حال میں اپنی ذات و صفات اور افعال میں اپنی مخلوق کے ہرگز بھی مماثل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے تو مثل اعلیٰ ہے۔ لہٰذا جو کمال بھی غیر اللہ کے حق میں ثابت ہے، وہ اس کے حق میں بدرجہ اولیٰ ثابت ہے۔ اور مخلوق جس نقص سے منزہ ہے، وہ اس نقص و عیب سے بدرجہ اولیٰ منزہ ہے اور ایک قادر و غنی کے جو بھی مناسب ہے رب تعالیٰ بدرجہ اولیٰ مستحق ہے کہ وہ اس کے مناسب ہو۔ اور یہ بات نہیں ہے کہ جو بھی اس ذات سے قبیح ہو جو اس کے حق میں مضر ہو، وہ اس سے قبیح بھی ہو۔ کیونکہ بندے نہ تو اس حد کو پہنچ سکے ہیں کہ اسے ضرور پہنچا سکیں اور نہ اس حد تک جا سکے ہیں کہ اسے نفع پہنچا سکیں ۔ چہارم :....یہ کہا جائے کہ مسلمانوں میں اس بات میں کوئی نزاع نہیں ہے کہ اللہ عادل ہے اور ظالم نہیں اور یہ کہ ہر وہ چیز جو بندے سے ظلم ہو، ضروری نہیں کہ وہ اللہ سے بھی ظلم ہو اور نہ یہ کہ جو بات بندوں سے قبیح ہو وہ رب تعالیٰ سے
Flag Counter