Maktaba Wahhabi

78 - 645
قابلِ مذمت، مبغوض اور لائقِ اجتناب ہوتا ہے۔ حالانکہ دونوں کا خالق اللہ ہے۔ اور وہ اللہ فرشتوں اور نبیوں کا بھی خالق ہے اور شیطانوں ، بچھوؤں ، سانپوں وغیرہ کا بھی خالق ہے۔ انبیاء وغیرہ محمود اور معظم ہیں ۔ جبکہ شیاطین اور سانپ وغیرہ فاسق اور حل و حرم میں ہرجگہ پر لائق گردن زدنی ہیں ۔ انبیائے کرام علیہم السلام وغیرہ میں رب تعالیٰ نے طبیعتِ کریمہ پیدا کی ہے جو خیر و احسان کا تقاضاکرتی ہے اور شیاطین وغیرہ میں طبیعتِ خبیثہ پیدا کی ہے جو شرو عداوت کو لاتی ہے، اور پھر ان میں محبت و بغض اور مدح و ذم کا بھی فرق ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جنت و جہنم، عالم و جاہل، شہد و زہر، راحت و رنج اور آدم و ابلیس سب کو پیدا کیا ہے۔ جب شرع و عقل دونوں اس امر میں ایک دوسرے کے ہم نوا ہیں کہ جس چیز میں منفعت و مصلحت پائی جاتی ہو، وہ واجب المدح ہے اگرچہ جمادات ہی سے کیوں نہ ہو؛ تو جس شخص کو اﷲ تعالیٰ نے مخلوقات میں سے انتہائی احسان کرنے والا بنایا ہو وہ کیونکر مدح کیے جانے کا زیادہ مستحق نہ ہوگا، برائی کے بارے میں بھی یونہی کہا جا سکتا ہے۔ بخلاف ازیں منکرین تقدیر کہتے ہیں کہ: احسان کی بنا پر کوئی شخص قابل مدح ہو سکتا ہے اور نہ ایذار سانی کے باعث قابل قدح؛ وہ مدح و ستائش کا مستحق اسی صورت میں ہوسکتا ہے، جب اﷲ نے اسے محسن نہ بنایا ہو۔ اس نے نیک کام کر کے ہم پر احسان نہیں کیا اور نہ ہی اس کی برائی کے ذریعہ ہمیں آزمائش میں ڈالاہو۔ اس رافضی منکر تقدیر کے قول کی حقیقت یہ ہے کہ جہاں بندے کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں اﷲ کا شکر ادا نہیں کیا جا سکتا اور جہاں شکر الٰہی مطلوب ہوتا ہے وہاں بندے کا شکریہ ادا کرنا بے سود ہے۔ عقل و شرع دونوں کے نزدیک اس قول کا فساد معلوم ہے۔ کہ اس قول کی حقیقت صرف اتنی ہی ہے کہ بندہ تو مشکور ٹھہرے پر رب تعالیٰ مشکور نہ ٹھہرے، اور جہاں اللہ مشکور ہو وہاں بندہ مشکور نہ ہو۔ یہاں تک کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں جو تعلیم و تبلیغ بہم پہنچائی ہے یہ اس کا احسان نہیں ہے۔جبکہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ﴾ (آل عمران: ۱۶۳) ’’بلاشبہ یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔‘‘ اس قدری کے عقیدہ کے مطابق تو اللہ کا رسول کو بھیجنا ایسا ہی ہے جیسے ایک مخلوق نے اپنا قاصد دوسری طرف بھیج دیا۔ سو رب تعالیٰ نے صرف رسول بھیج کر احسان کیا۔ یہ احسان نہیں کہ اس نے رسول کو ان کے لیے قرآن پڑھنے والا، اور انہیں پاک کرنے والا اورانہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دینے والا بنا کر مبعوث کیا۔ بلکہ ان کے نزدیک یہ افعال رسول کی طرف منسوب ہیں جن کو اس نے پیدا کیا ہے۔ نہ کہ بھیجنے والے کی طرف جس نے ان میں سے کوئی چیز پیدا نہیں کی۔ یہ قدری کہتا ہے کہ رسول بنفسہ ناطق ہے نہ کہ اسے اللہ تعالیٰ نے ناطق بنایا ہے، اور نہ ہی اللہ نے کسی اور چیز کو ناطق
Flag Counter