Maktaba Wahhabi

76 - 645
اور اس کے ان پیروکاروں کے جو افلاک کے قدم کے قائل ہیں ۔ کیونکہ ان کے قول کا فاسد ہونا صحیح منقول اور صریح معقول سے معلوم اور واضح ہے۔ دوسرے یہ کہ معین مفعول کا فعل کو لازم ہونا، اس کے قدیم پر قدیم اور اس کے دوام پر دائم ہونا بالذات ممتنع ہے، اور اگر فرض کیا کہ فاعل غیر مختار ہے تو اس وقت کیا جب یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ فاعل ہے؟ رہی ان کی یہ دلیل کہ علت معلول پر بالذات مقدم ہے۔ بغیر زمان کے، تو یہ غیر معقول اور غیر موجود ہے سوائے اس کے جس میں یہ شرط ہے۔ کیونکہ شرط کبھی مشروط کے مقارن ہوتی ہے۔ رہی وہ علت جو معلول کے لیے فاعل کا فعل ہے تو اس میں علت کی معلول کے ساتھ زمانے میں مقارنت غیر مقول ہے۔ یہ لوگ زمانے کے بغیر علت کے معلول پر بالذات تقدیم کے قائل ہیں ۔ جیسے کہ ہاتھ کی حرکت انگوٹھی کی حرکت پر بالذات متقدم ہے۔ اسی طرح حرکت آواز پر مقدم ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ لوگ جو بھی مثالیں پیش کرتے ہیں یا تو وہ شرط ہیں ناکہ فاعل اور یا پھر متقدم بالزمان ہیں ۔ رہا فاعلِ غیر متقدم تو وہ ہر گز بھی معقول نہیں ۔ غرض یہ مقام ان مقالات کے بیان کا نہیں ۔ یہ روئے زمین کے سب سے گمراہ مقالات ہے۔ ان پر کلام کا محل دوسرا ہے۔ یہاں دراصل ان قدریہ کی اصل پر تنبیہ مقصود ہے کہ ان کے قول کی حقیقت یہ ہے کہ حیوان کے افعال فاعل کے بغیر حادث ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ دہریہ فلاسفہ کے قول کی اصل یہ ہے کہ فلک کی حرکت اور جمیع حوادث کی حرکت سبب حادث کے بغیر ہوتی ہے۔ اسی طرح اہلِ اثبات میں سے جو قدریہ کے اس بات میں موافق ہیں کہ افعال رب تعالیٰ کے ساتھ قائم نہیں ہیں ۔ کہتے ہیں کہ فعل ہی مفعول اور خلق ہی مخلوق ہے۔ جیسا کہ اشعریہ اور ان کے ہم نواؤں کا قول ہے کہ اسے بھی رب کے فعل میں وہ لازم آتا ہے جو قدریہ کو لازم آتا ہے۔ اسی لیے اس رافضی کی شناعات ان لوگوں پر ہیں ، او ریہ خلفائے ثلاثہ کے مثبتین کی جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے، اور بسا اوقات بے شمار زیدیہ امامیہ وغیرہ شیعہ اس باب میں ان کی موافقت کرتے ہیں ۔ لیکن بہرحال ان کا قول قدریہ کے قول سے کم خطا پر ہے۔ بلکہ ان کی اصل خطا قدریہ کی بعض خطا میں ان کی موافقت کرنا ہے۔ جبکہ آئمہ اہلِ سنت میں کوئی اس خطا کا قول نہیں کرتا۔ اسی طرح اہلِ حدیث و تفسیر و فقہ و تصوف میں سے جمہور اہلِ سنت خطا کو متضمن ان کے اقوال کے قائل نہیں ۔ بلکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے، اور یہ کہ بندہ قادر مختار ہے جو اپنی مشیئت قدرت سے فعل کرتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا خالق ہے، اور یہ کہ افعالِ اختیاریہ اور اضطراریہ میں فرق ہے، اور یہ کہ رب تعالیٰ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ فعل کرتا ہے، او ریہ کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا، اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا، اور یہ کہ وہ ہمیشہ سے افعال پر قادر صفاتِ کمال کے ساتھ موصوف اور جب چاہے متکلم ہے، اور وہ ان صفات کے ساتھ موصوف ہے
Flag Counter