Maktaba Wahhabi

70 - 645
’’تم میں دو عادتیں ایسی ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں : بردباری اور متانت۔‘‘ انہوں نے عرض کی: کیا میں نے دو خصلتوں کو اپنے اندر پیدا کیا ہے، یا میں ان دونوں خصلتوں پر پیدا کیا گیا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ تم ان دونوں خصلتوں پر پیدا کیے گئے ہو۔‘‘ اس پر انہوں نے عرض کیا: سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے دو ایسی خصلتوں پر پیدا کیا ہے جو اسے محبوب ہیں ۔‘‘ [1] یہ حضرات بندے کے لیے قدرت کو ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں : قدرت کی مقدور میں تاثیر ایسے ہی ہے جیسے جملہ اسباب کی مسببات میں تاثیر ہے، اور سبب مسبب میں مستقل نہیں پایا جاتا۔ بلکہ وہ اپنے معاون کا محتاج ہوتا ہے۔ اس طرح بندے کی قدرت ہے کہ وہ مقدور میں مستقل نہیں ، اور یہ کہ اس کا سبب اسے روکتا اور اس کی راہ میں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔ اسی طرح بندے کی قدرت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا سبب کا خالق ہے، اور اس کا بھی جو سبب میں معاون ہو یا اس میں روکاوٹ ہو۔ اسی طرح بندے کی قدرت ہے۔ اسی طرح اس امامی نے جو ہمارے مقاصد و دواعی کے اعتبار سے واقع ہونے والے افعالِ اختیاریہ میں اور افعالِ اضطراریہ میں ، جیسے نبض کی حرکت وغیرہ۔ جو ضروری فرق بیان کیا ہے، وہ برحق ہے اور اہلِ سنت والجماعت اور ان کے پیروکاروں کا قول ہے، اور اس میں امتِ مسلمہ کے کسی ایک فرد نے بھی، جسے امت میں لسانِ صدق حاصل ہے۔ جیسے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام رحمہم اللہ وغیرہ، اختلاف نہیں کیا، اور مالک، ابو حنیفہ، ثوری، اوزاعی، لبث، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ جیسے مجتہدین اور خلفاء نے اختلاف کیا ہے۔ تو جب مثبتین قدر میں ایسے لوگ ہیں جنہیں بطلانِ فرق لازم آتاہے تو ان کا قول باطل ہوگا۔ لیکن بہرحال منکرین تقدیر کایہ قول اس سے بھی زیادہ باطل ہے۔ سو اس قدری نے ایک باطل کا رد اس سے بھی زیادہ بڑے باطل کے ساتھ کیا ہے، اور اہل سنت ان دونوں امور میں اس کے موافق نہیں ۔یقیناً وہ صرف حق کہتے اور جانتے ہیں ۔ اس قدری امامی کا قول زیادہ باطل ہے۔ مندرجہ بالا بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ بندوں کے افعال حادث ہیں ؛ اور معدوم ہونے کے بعد عالم وجود میں آئے ہیں ، لہٰذا ان کا حکم بھی وہی ہے جو باقی حوادث کاہے اور یہ بھی دیگر ممکنات کے زمرہ میں داخل ہیں ۔ بنا بریں جس دلیل سے بھی حوادث و ممکنات کے مخلوق ہونے پر استدلال کیا جائے گا اس سے یہ بھی عیاں ہوگا کہ افعال العباد اﷲ کے پیدا کردہ ہیں ۔ یہ حقیقت محتاج بیان نہیں کہ ہر محدث (حادث شدہ چیز) اپنے وجود میں محدث (وجود میں لانے والے) کی محتاج ہے۔ یہ مقدمہ جمہور کے نزدیک ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ بعینہ اسی طرح ہر ممکن مرجّح تام کا محتاج ہے، جب بندے کے افعال حادث ہیں تو ان کے لیے ایک محدث کا وجود ناگزیر ہے، جب بندے کو اپنے افعال کا موجد قرار دیا جائے تو یہ تسلیم
Flag Counter