Maktaba Wahhabi

64 - 645
رہا ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَ کَانُوْا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًاo﴾ (الکہف: ۱۰۱) ’’اور وہ سننے کی استطاعت ہی نہ رکھتے تھے۔‘‘ تو وہاں اللہ نے اس کلام سے یہ مراد نہیں لی۔ کیونکہ سب لوگ ایسے نہیں کہ ان کے پاس فعل سے قبل موجب فعل قدرت ہو۔ پس اس کے ساتھ صرف نافرمان خاص نہیں ۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ یہ لوگ حق بات سننے سے سدید کراہت کرتے تھے جس کے ہوتے ہوئے ان کے جی سن نہ سکتے تھے، اور یہ ان کے بغض کی وجہ سے تھا ناکہ عجز کی وجہ سے۔ جیسا کہ حاسد محسور پر احسان سے قاصر ہوتا ہے اور اس کا سبب اس کا بغض ہونا ہے ناکہ عجز۔ ایسی استطاعت کا عدم امر و نہی سے منع نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ بندے کو ناگوار بات کا حکم دیتا ہے اور محبوب کے ترک کا مکلف بناتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَ ہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ﴾ (البقرۃ: ۲۱۶) ’’تم پر لڑنا لکھ دیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمھیں نا پسند ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰیo﴾ (النازعات: ۳۰) ’’اور رہا وہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اس نے نفس کو خواہش سے روک لیا۔‘‘ غرض اگر بندہ ارادے کرے تو اس پر قادر ہوتا ہے، اور ممنوع کو ترک کر سکتا ہے، اور مامور بہ بس یہ شرط نہیں کہ بندہ اس کا ارداہ بھی کرنے والا ہو، اور نہ منہی عنہ میں یہ شرط ہے کہ وہ بندے کو ناگوار بھی ہو۔ کیونکہ فعل قدرت اور ارادہ پر موقوف ہوتا ہے، اور تکلیف میں یہ بات مشروط ہے کہ بندہ فعل پر قادر ہو، یہ نہیں کہ اس کا ارادہ کرنے والا بھی ہو۔ البتہ اس کا ارادہ کرنے والا ہونا ضروری نہیں ۔ ہاں فعل ارادہ کے وقت ہی پایا جائے گا۔ پس ارادہ فعل کے وجود کی شرط ہے ناکہ وجوب کی۔ تیسري وجہ: تکلیف مالا یطاق کی یہ تفسیر بیان کی جائے کہ یہ وہ فعل ہے جس پر وہ قدرت نہیں ہوتی جو اس کے مقدور کے مقارن ہوتی ہے۔ اس تفسیر کی بناء پر تکلیف مالایطاق کا امتناع مورد نزاع ہے اور اس کی نفی دلیلِ محتاج ہے۔ چوتھي دلیل: قدر کے بعض مثبتین عجز کے وقت بھی مالایطاق کی تکلیف کو جائز سمجھتے ہیں ۔ بلکہ غالی تو ممتنع بالذات کی تکلیف کو بھی جائز سمجھتے ہیں ، اور بعض تو اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ شریعت میں ایسا ہے۔ جیسے ابو لہب کو ایمان لانے کا مکلف بنانا۔ حالانکہ رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دے دی ہے کہ وہ ایمان نہ لائے گا۔ اگرچہ یہ قول مرجوع ہے۔ لیکن اس قدری نے اس کے ابطال کی دلیل ذکر نہیں کی، اور نہ اس کے معارضہ کا جواب ہی ذکر کیا ہے۔ بلکہ صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا ہے کہ ایسا عقلاً ممتنع اورقبیح ہے۔
Flag Counter