Maktaba Wahhabi

624 - 645
آپ کے والد ِ ماجد کو قتل کیا ؛ وہ تو آپ کو کافر اور مرتد سمجھتے تھے۔ اور آپ کے قتل کرنے کو اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ بخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔اس لیے کہ وہ لوگ آپ کو کافر نہیں سمجھتے تھے ۔ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ آپ کو قتل کرنے کے خلاف تھے۔ اور آپ کے قتل کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنے اغراض و مقاصد کے لیے قتل کیا۔ جیسا کہ لوگ اقتدار کے لیے آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوگیا کہ اس بارے میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس میں بہت زیادہ جھوٹ ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہنا کہ اس دن آسمان سے خون کی بارش ہوئی۔ایسا تو کسی ایک کے قتل پر بھی کبھی نہیں ہوا اور یہ واقعہ بیان کرنا کہ اس دن دوپہر کے وقت آسمان پر سرخی ظاہر ہوگئی۔ یہ سرخی اس سے پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوئی۔ یہ ایسی من گھڑت باتیں ہیں ؛ جن کی مثال سابق میں نہیں ملتی۔اس لیے کہ یہ سرخی تو ظاہر ہوتی رہتی ہے مگر اس کے کچھ اور طبعی اسباب ہیں ؛ یہ ایسے ہیں جیسے شفق۔ ایسے ہی رافضی کا یہ دعوی کرنا کہ : ’’ اس دن جو بھی پتھر اٹھایا جاتا اس کے نیچے سے خون نکلتا ۔‘‘ یہ صاف جھوٹ ہے۔ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قاتلان حسین رضی اللہ عنہ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں بچا جسے دنیا میں سزا نہ دی گئی ہو۔ گناہوں میں سے جس گناہ کی سزا بہت ہی جلد مل جاتی ہے وہ کسی پر ظلم کرنا ہے ۔ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر ظلم کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ [ اشکال ] : رافضی مصنف کا کہنا ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن او رحضرت حسین رضی اللہ عنہما کے متعلق مسلمانوں کو بہت زیادہ وصیت کیا کرتے ؛ آپ فرمایا کرتے تھے : ’’ یہ تمہارے پاس میری امانت ہیں ۔‘‘پھر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی: ﴿ قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ (الشوریٰ) ’’آپ فرمادیں کہ میں قرابت داری کی محبت کے سوا تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا۔‘‘ [جواب]:حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا حق واجب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے مابین غدیر خم کے مقام پر لوگوں سے خطاب کیا ؛ آپ نے فرمایا : ’’میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہے ہوں ، ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے تو تم اللہ کی اس کتاب کو پکڑے رکھو اور اس کے ساتھ مضبوطی سے قائم رہو اور آپ نے اللہ کی کتاب(قرآن مجید)کی خوب رغبت دلائی، پھر آپ نے فرمایا:’’(دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں ۔ میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں ، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تم لوگوں کو اللہ یاد دلاتا ہوں ،میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تم لوگوں کو اللہ یاد دلاتا ہوں ۔‘‘ [1]
Flag Counter