Maktaba Wahhabi

616 - 645
فتنہ پیش آیا تو اس وقت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثیر تعداد میں موجود تھے؛ان کا اس بات پر اجماع ہو گیا کہ : ’’ ہر وہ خون؛ اور مال اور شر مگاہ جو تأویل قرآن کی بنیاد پر حلال سمجھے گئے ہوں ؛ وہ ہدر ہیں ۔ اور ان کے ساتھ جاہلیت والا معاملہ کیا جائے ۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق اور ہدایت کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا۔ پس ہدایت کی بناپر حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اور دین حق سے خیر کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔ پس حق کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔پھر اس کا ارادہ بھی ہو اور اس پر عمل کرنے کی طاقت بھی۔ جب کہ فتنہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ فتنہ معرفت حق ؛ اس کے قصد و ارادہ اور اس پر قدرت میں مانع ہوتا ہے۔اس میں ایسے شبہات ہوتے ہیں جو حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتے ہیں ۔ حتی کہ بہت سارے یا اکثر لوگ اس میں فرق ہی نہیں کرسکتے۔اس میں اتنی خواہشات؛ اور شہوات ہوتی ہیں جوحق کے قصد و ارادہ سے باز رکھتے ہیں ۔اس میں شر میں قوت ظہور اتنی زیادہ ہوتی ہے جو کہ خیر پر قدرت کو کمزور کردیتی ہے۔ اس لیے انسان فتنہ میں اپنے دل میں نکارت پاتا ہے۔ اور دل پر ایسے خیالات اور وساوس آتے ہیں جو حق کی معرفت اور اس کے ارادہ سے باز رکھتے ہیں ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ: فتنہ اندھا اور بہرا ہوتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے: ’’فتنے اندھیری رات کے ٹکڑے کی طرح ہوتے ہیں ۔ اور اس طرح کے دیگر الفاظ میں بھی فتنہ کو بیان کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ فتنہ میں جہالت غالب ہوتی ہے اور علم مخفی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل فتنہ کو اہل جاہلیت کی منزلت پر سمجھا جاتا ہے۔اسی لیے نہ ہی جانوں کی ضمانت دی جاتی ہے اور نہ ہی اموال کی۔ اس لیے کہ ضمانت[؍یا معاوضہ ] تو اس چیز کی ہوتی ہے جس میں یہ پتہ چلے کہ فلاں انسان نے کسی دوسرے کی جان یا مال کا نقصان کیا ہے؛ یا حق مارا ہے۔ جس کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہ ہو؛ تووہ کفار مرتدین اور متأول باغیوں میں سے اہل جاہلیت کی طرح ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا ۔ اور نہ ہی کوئی ضمانت؍ یا معاوضہ ہوتا ہے۔ جیساکہ اس انسان پر کوئی تاوان نہیں ہوتا جو یہ سمجھتا ہو کہ اس نے برحق نقصان کیا ہے۔ اگرچہ یہ حق پر ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل جاہلیت یا تو اس جہالت سے توبہ کرلیں ۔ پس ان کی توبہ سے ان کے عہد جاہلیت کے اعمال معاف ہوسکتے ہیں ۔ یا پھر وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جو اپنی اس جاہلیت کی بنا پر عذاب کے مستحق ہیں ؛ جیسے کفار۔ان لوگوں کے لیے آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کافی ہوگا۔ یا پھر یہ لوگ مجتہد متأول اور خطا کار ہوں ہوں گے۔ تو اس صورت میں جب ان کی خطائیں معاف ہوں گی تو ان کے خطاؤں کے موجبات بھی معاف کردیے جائیں گے۔
Flag Counter