Maktaba Wahhabi

603 - 645
بھلائی کا حکم دے؛ اور برائی سے منع کرے؛ اس معاملہ میں اس کی مدد کی جائے گی۔ جب تک کہ اس میں کوئی خرابی راجح نہ ہو۔ اوریہ کہ بیشک جمعہ اورجماعت کا قیام بہت ضروری ہے۔اگر اس کے لیے کسی نیک انسان کو امام مقرر کرنا ممکن ہو تو پھر کسی ایسے بدعتی کو امام بنانا جائز نہیں جو اپنی بدعات کااظہار کرتا ہو۔ کیونکہ ایسے لوگوں پر حسب استطاعت انکار واجب ہوتا ہے؛ تو پھر ان کو ولایت تفویض کرنا جائز نہیں رہتا۔ اور اگر صرف یہی ممکن ہو کہ دو اہل بدعت و فجور میں سے کسی ایک کو ولایت تفویض کرنا ہو؛ تو پھر ان میں سے ایسے آدمی کو والی بنایا جائے جو اس واجب کی ادائیگی کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ ایسے ہی جب غزوات میں دو آدمیوں میں سے کسی ایک کو امیر بنایا جانا ہو؛ ان میں سے ایک دیندار ہو مگر جہادی اعتبار سے کمزور ہو؛ اور دوسرے کے گناہوں کے باوجود وہ جہاد کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو؛ تو اسے ولایت تفویض کی جائے جس کی امارت و ولایت مسلمانوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔ وہ اس آدمی سے زیادہ بہتر ہے جس کی ولایت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔اور جب نماز جمعہ کی ادائیگی اور باجماعت نماز کا قیام صرف فاجر اور بدعتی کے پیچھے ہی ممکن ہو؛ تو اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے گا؛ اور اس کااعادہ نہیں ہوگا۔ اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے پیچھے نماز پڑھنا ممکن ہو تو پھر اس کے پیچھے نماز ترک کرنے میں اس سے قطع تعلقی ہے؛تاکہ یہ اور اس کے امثال و ہمنوا اپنی بدعات اورفجور سے باز آجائیں ؛ تو پھر ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ اور اگران کے پیچھے نماز ترک کرنے میں کوئی دینی مصلحت نہ ہو تو پھر ان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے گی۔ اور کسی پر بھی ایک نماز کا دو بار پڑھنا فرض نہیں ہوتا۔ خلاصہ کلام ! جہاں تک ممکن ہوسکے اہل سنت و الجماعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کی کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی یہی ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ [تغابن ۱۶] ’’تم سے جتنا ہوسکے اللہ سے ڈرو۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: ’’جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دو ں تو جتنا ہوسکے اسے پورا کرو۔‘‘[سبق تخریجہ ] وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بندوں کی معاش اور معاد کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ اور بیشک آپ نے اصلاح کا حکم دیا ہے ؛ اورفساد سے منع کیا ہے۔پس جس کسی فعل میں صلاح اور فساد دونوں پہلو موجود ہوں تو وہ اس میں سے راجح کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پس جب اس میں صلاح کا پہلو فساد پر غالب ہو تو وہ اس کے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اور اگر فساد کا پہلو صلاح پر غالب ہو تو اس کے ترک کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ بلاشک و شبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مصلحتوں کی تکمیل ان کے حصول اورمفاسد کے خاتمہ اور ان کے انسداد کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔پس جب کوئی خلیفہ خلافت پر فائز ہوتا ہے ؛ جیسے یزید اور عبدالملک اور منصور ؛ اور ان کے علاوہ دیگر؛ توپھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ: یاو اسے ولایت پر فائز ہونے سے روکا جائے اور اس سے جنگ کی جائے حتی کہ کوئی
Flag Counter