Maktaba Wahhabi

593 - 645
بخلاف ان کے کہ جن کی اطاعت پر لوگوں کا اجماع ہوچکا ہے ۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوچکا تھا؛ تو [سیاسی مسائل میں ] ہر نافرمانی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے تکبر کرنے والا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ نافرمانی کبھی شہوت کی وجہ سے صادر ہوتی ہے اور کبھی تکبر کی وجہ سے۔ تو پھر کیا یہ حکم لگایا جاسکتا ہے کہ ہر نافرمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے ایسے ہی تکبر کرنے والا ہے جیسے ابلیس نے تکبر کیا تھا؟ نویں بات :....[شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بابت کہتا ہے ] ’’عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کی ۔‘‘ اگر اس دلیل [اجماع]میں کوئی حجت نہیں تو پھر اس کے ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اگریہ حجت ہے تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر ان تمام کا اجماع تھا اور آپکی بیعت بھی بہت عظیم الشان تھی۔ جبکہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے سرکشی کرنے والے کو کافر نہیں کہتے بلکہ اسے مؤمن اور متقی شمار کرتے ہیں ۔ دسویں بات:....تمہارے اس قول کے مطابق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اجتماع زیادہ کامل تھا۔ تم اور دوسرے لوگ کہتے ہو: حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی خلافت سے ایک مدت تک پیچھے رہے ۔ تو تمہارے اس قول کے مطابق حضرت علی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امام تسلیم کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک عرصہ تک تکبر کرتے رہے ۔ تو تمہاری اس حجت کے مقتضی کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کفر لازم آتا ہے[معاذ اللہ] ۔ یا پھر تمہاری یہ دلیل ہی سرے سے باطل ہے۔یہ بات یقینی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کفر کا قول باطل ہے ؛ تو اس سے لازم ہوا کہ تمہاری دلیل سرے سے باطل ہے ۔ گیارھویں بات :....یہ کہنا کہ :’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کی ۔‘‘ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ بہت سارے مسلمان ؛ آدھے یا اس سے کچھ زیادہ یا کم آپ کی بیعت میں شریک نہیں ہوئے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ نے آپ کی بیعت نہیں کی ۔ بارھویں بات :....[شیعہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتا ہے ] ’’وہ آپ کی جگہ پر بیٹھ گیا ۔‘‘یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شروع میں اپنے لیے ہر گز خلافت طلب نہیں کی تھی۔ اورنہ ہی آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امارت سے معزول کرنا چاہتے تھے۔ لیکن آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی۔ اورآپ اس علاقے پروالی رہے جہاں کی ولایت حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کے دور میں آپ کے پاس تھی۔ جب فریقین کے درمیان صلح کے لیے جرگہ ہوا تو اس وقت آپ صرف اپنی رعیت کے متولی تھے ۔ ہاں اگر اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے اپنے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ؛ تو پھر یہ بات درست ہے۔لیکن حضرت امیر معاویہ فرمایا کرتے تھے : ’’ جو چیز آپ کے ہاتھ میں ہے میں اس کے بارے میں آپ سے جھگڑا نہیں کرتا ؛ لیکن میرے ہاں کوئی ایسا ثبوت بھی نہیں ہے جس کی روشنی میں مجھ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت گزاری میں داخل ہونا واجب ہوتا ہو۔‘‘ یہ کلام خواہ حق ہو یا باطل ؛ مگر اس کے قائل کوہر گز ابلیس سے برا نہیں کہا جاسکتا ۔ پس جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ابلیس سے برا کہتا ہے : تو اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر؛ اس کے رسول پر اور اہل ایمان پر جھوٹ گھڑنے والا اور بہتان
Flag Counter