Maktaba Wahhabi

586 - 645
ہوتے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔بلکہ خوارج جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کا حکم دیا تھا‘ وہ حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں میں سے بھی تھے ۔ ان کے خلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کونصرت حاصل ہوئی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مرسلین علیہم السلام کے دور میں ان کے مخالفین پر مدد کی جاتی تھی ۔ اگرچہ ان جنگوں میں بہت بڑے امتحان کا بھی سامنا کرنا پڑا ؛ مگر آخر میں اچھا انجام کار مؤمنین کے حق میں ہی ہوتا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جنگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ ہوتی تو آخر کار آپ کو فتح و کامرانی ضرور نصیب ہوتی۔حالانکہ ایسا ہوا نہیں ۔ بلکہ آخر میں آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ بندی اور صلح کرنا چاہی ۔اور معاملہ ویسے ہی ہوا جیسے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شروع میں چاہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ :یہ جنگ و قتال ؛ اگرچہ اس کی بنیاد اجتہاد پر تھی ؛ مگر یہ ایسی جنگ بھی نہیں تھی کہ اس جنگ کے لڑنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے والے سمجھ لیا جاتا۔ اور پھر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے تھے ؛ تو ان محاربین کا حکم راہزنوں کا حکم ہوتاہے ؛ اگر یہ مسلمان ہوں تو انہیں کافر نہیں کہا جاسکتا ۔ اﷲتعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں لوگوں کا اختلاف ہے: ﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا ﴾ (المائدۃ ۳۳] ’’ ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں ، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے۔‘‘ کیایہ آیت کفار کے بارے میں ہے یا مسلمانوں کے بارے میں ؟ جو لوگ کہتے ہیں : یہ آیت مسلمانوں کے بارے میں ہے؛ وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کافرمان یہ ہے : ﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَ اَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ﴾ (المائدۃ ۳۳] ’’ ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں ، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں ، یا انھیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔‘‘ اگر یہ لوگ کفار اور مرتد ہوتے تو صرف ان کے ہاتھ کاٹنے یا ملک بدر کرنے پر اکتفا کرنا جائز نہ ہوتا۔ بل ان کا قتل کرنا واجب ہوتا۔ کیونکہ مرتد کو قتل کرنا واجب ہے۔ ایسے ہی جو کوئی اپنے محاربہ میں متأول اور مجتہد ہو تو وہ کافر نہیں ہوتا۔ جیسے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا اس مسلمان کو تأویل کی بنا پر قتل کرنا؛ اس وجہ سے آپ کافر نہیں ہوئے۔ اور اگر کوئی کسی معصوم مسلمان کے قتل کرنے کو حلال سمجھتا ہو ؛ تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ یہی حال مؤمن کی تکفیر کرنے والے کا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
Flag Counter