Maktaba Wahhabi

58 - 645
کے اکثر اصحاب اللہ تعالیٰ کے افعال میں حکمت کے قائل ہیں ۔ دوسری وجہ : ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انبیائے کرام اورمرسلین کی صداقت صرف معجزات ہی کے ذریعہ ظاہر کی جا سکتی ہے ۔ بلکہ اس کی صداقت کا اظہارمعجزات کے علاوہ دیگر مختلف طرق ووجوہ سے ممکن ہے ۔جیسا کہ دوسرے مواقع پر ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔ پس جس شخص کے نزدیک صرف معجزات ہی سے نبی کی صداقت کا اظہار ہوسکتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی دلیل پیش کرے۔اس لیے کہ کسی چیز کا انکار کرنے والے پر بھی ایسے ہی دلیل پیش کرنا لازم ہوتا ہے جیسے کسی چیز کا اثبات کرنے والے پر دلیل پیش کرنا لازم ہے۔مگر شیعہ مصنف نے اس نفی پر کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ تیسري وجہ: یہ کہا جائے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ معجزہ کی صدق پر دلالت اس بات پر موقوف ہے کہ یہ جائز نہیں کہ وہ اسے کرے جو ذکر کرے۔اس پر مزید یہ کہ کسی نبی کے صادق ہونے پر معجزات کی دلالت ایک بد یہی امر ہے جو محتاج فکر و نظر نہیں ، اس لیے کہ دعویٰ نبوت کے ساتھ معجزہ کا پایا جانا اس امر کی لازمی اور بدیہی دلیل ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے وہ معجزہ نبی کی صداقت کے لیے ظاہر کیاہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص جب بادشاہ سے کہے کہ اگر آپ نے مجھے فلاں جانب ایلچی بنا کر بھیجا ہے تو خلاف معمول تین مرتبہ اٹھیے بیٹھئے اور بادشاہ اس کی تعمیل کر دے تو بادشاہ کا یہ فعل اس امر کی دلیل ہوگا کہ قاصد کی تصدیق کے لیے اس نے یہ فعل انجام دیا۔ چوتھي وجہ: قائل کا یہ قول کہ: اگر معجزہ صدق پر دلالت نہ کرے تو باری تعالیٰ کا تصدیقِ رسول سے عاجز آنا لازم آتا ہے اور اللہ میں عجز ممتنع ہے۔ کیونکہ تصدیق کا طریق صرف معجزہ ہے۔ یہ اکثر اصحاب اشعری اور ان کے ہم نواؤں کا طریق ہے، اور یہی قاضی ابو بکر اور قاضی ابو یعلی وغیرہ کا بھی طریق ہے۔ پہلا طریق بھی ان میں سے اکثر کا ہے، اور وہ ابو المعالی اور ان کے پیروکاروں کا طریق ہے، اور یہ دونوں اشعری کے طریق ہیں ، اور اس بناء پر کیا جھوٹے مدعی نبوت پر معجزہ کا اظہار ممکن و مقدور ہوگا یا نہیں ؟ اس بارے دو اقوال ہیں ۔ پانچویں صورت: یہ کہا جائے کہ معجزہ اس بات پر موقوف ہے کہ اللہ نے جس کی بھی تصدیق کر دی وہ صادق ہے۔ یہ قول اس وقت صحیح ہے کہ جب معجزہ بمنزلہ تصدیق بالقول کے ہو۔ اس میں اختلاف ہے۔ بعض کا قول ہے کہ معجزہ بمنزلہ انشاء رسالت کے ہے، اور انشاء میں تصدیق یا تکذیب کا احتمال نہیں ہوتا۔ لہٰذا قائل کو دوسرے کو یہ قول کہ میں نے تجھے بھیجا یا میں نے تجھے وکیل بنایا وغیرہ، یہ انشاء ہے۔ تو جب معجزہ کی انشائے رسالت پر دلالت اس بات پر موقوف نہیں کہ وہ اللہ کسی غرض کے لیے فعل نہیں کرتا، اور نہ اس بات پر موقوف ہے کہ وہ قبائح کا فعل نہیں کرتا تو انشاء بھی امر و نہی جیسا ہوا۔ چھٹي وجہ: یہ کہا جائے کہ چونکہ یہ محال ہے کہ وہ کسی غرض کے لیے فعل کرے تو یہ بھی محال ہوا کہ وہ معجزہ کو تصدیق کے لیے ظاہر کرے۔ اس کی طرف وہ جو اس بات کا قائل ہے کہ وہ اللہ ایک شے کو دوسرے شے کے لیے کرتا ہے، یہ جواب دیتا ہے کہ کبھی وہ دو متلازم باتوں کو بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ وہ جملہ دلائل کو ان کے مدلولات کے لیے کرتا
Flag Counter