Maktaba Wahhabi

560 - 645
فرماتے ہیں : ’’جب فتنہ بپا ہوا تو اصحاب رسول کی تعداد کچھ کم نہ تھی۔ جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس بات پر اجماع کر لیا تھا کہ جس خون ، مال یا عفت و عصمت کو بنا بر تاویل حلال کیا گیا ہو وہ ہدرہے (جس پر شرعی سزا نہ دی جائے) ؛ اور اسے جاہلیت کا سا معاملہ سمجھاجائے ۔‘‘ جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے لعنت کا تعلق ہے، فریقین دعا میں ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے؛ جیسا کہ ان کے مابین جنگ بھی بپا ہوئی۔ان کے سردار اُن پراپنی دعاؤوں میں لعنت کرتے تھے ‘ اور دوسرے گروہ کے سردار پہلے گروہ کے بڑوں پر لعنت کرتے تھے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں سے ہر گروہ دوسرے کے خلاف دعاء قنوت پڑھ کر بددعا کرتاتھا ۔ کسی کے خلاف جنگ آزما ہونا اس پر لعنت بھیجنے سے بھی عظیم تر ہے۔ لعنت بھیجنے کا فعل خواہ گناہ ہو یا صحیح و غلط اجتہاد پر مبنی ہو، اﷲ کی مغفرت کا حصول بنا بر توبہ گناہوں کا ازالہ کرنے والے اعمال صالحہ اور گناہوں کا کفارہ بننے والے حوادث و آلام کی وجہ سے ممکن ہے۔پھرعجیب بات یہ ہے کہ روافض سَبِّ علی رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرتے ہیں اور خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرنے اور ان کو اور ان سے محبت رکھنے والوں کو برا بھلا کہنے سے نہیں شرماتے۔ بخلاف ازیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے احباب و انصار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر نہیں کرتے ، آپ کی تکفیر صرف خوارج کرتے ہیں ، جو دین اسلام سے نکل چکے ہیں ،رافضہ ان سب سے برے ہیں ۔اگر خوارج اس گالم گلوچ کا انکار کرتے تو ان کے قول میں تناقض ہوتا۔توپھر رافضی اس کا انکار کیسے کرسکتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کوگالی دینا جائز نہیں ۔نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کونہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور نہ ہی ان دونوں کے علاوہ کسی اور کو ۔ پھر جو کوئی حضرات ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو گالی دے ‘ اس کا گناہ اس سے بڑھ کر ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دے ۔ اگرچہ ان صحابہ کو گالی دینے والا کسی تاویل کا بھی شکار ہو ؛تو اس کی تأویل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والے کی تاویل سے بڑھ کر فاسد اور بے کار ہے۔ اگر ان صحابہ کو تاویل کی وجہ سے گالی دینے والا برانہیں ہے تو پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی برے نہیں ہوسکتے ۔اور اگریہ حرکت مذموم ہے ‘ تو پھر شیعہ جو کہ خلفاء ثلاثہ کو گالی دیتے ہیں وہ نواصب سے بڑھ کر مذمت کے مستحق ہیں جو کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کوگالی دیتے ہیں ۔ خواہ جس زاویہ سے بھی اس معاملہ کو لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ شیعہ سب سے زیادہ حق سے دور ہیں ۔ صحیحین میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے صحابہ کو گالی نہ دو، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے، تو وہ ان کے عشرعشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[1]
Flag Counter