Maktaba Wahhabi

554 - 645
مالک بن یُخامر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ میں نے سیّدنامعاذ رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ اس سے اہل شام مراد ہیں ۔‘‘[1] صحابہ کا خیال ہے کہ اس سے شامی لوگ مراد ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج میں تھے۔ صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ اہل مغرب ہمیشہ غالب رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت بپا ہو جائے گی۔‘‘[2] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ اہل مغرب سے اہل شام مراد ہیں ۔‘‘ ہم نے دوسری جگہ اس پر مکمل گفتگو کی ہے، یہ نص عسکرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو شامل ہے۔ صحابہ کا قول ہے کہ:حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت سے مقرر کردہ امراء سے افضل تھے۔ لہٰذا ان کو معزول کرکے سیاست میں ان سے فروتر درجہ کے لوگوں کو حاکم مقرر کرنے میں کوئی مصلحت مضمر نہ تھی۔ بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو امیر مقرر کیا ۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا گیا تھاکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر رہنے دیں ۔لوگوں نے کہا : انہیں چند ماہ کے لیے عامل مقرر کردیں او پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معزول کردیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسا کرلینے میں مصلحت تھی ۔خواہ ایسا کرنا آپ کے استحقاق کی وجہ سے ہو‘ یا پھر آپ کی تالیف قلب اور خیر سگالی و نرمی کے لیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد جناب ابو سفیان کو والی مقرر کیا ۔ معاویہ ان سے بہتر تھے۔ تو جو ہستی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہتر تھی اس نے ایسے انسان کو والی مقرر کیا جو معاویہ رضی اللہ عنہ سے کم تھا۔ [اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بدستوروالیٔ شام رہنے دیتے تو امت فتنہ پردازی اور خونریزی سے محفوظ رہتی] اگر یہ کہا جائے کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کی بنا پر ایسا کیا تھا ۔‘‘ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ:’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی جو امورصادر ہوئے وہ ان کے اجتہاد پر مبنی ہیں ۔ مزید برآں یہ کیا اجتہاد ہے کہ بعض لوگوں کو ولایت و امارت پر فائز کیا جائے اور بعض کو محروم رکھا جائے اور اس کے پہلو بہ پہلو امت میں خون ریزی کا باب اس حد تک کھل جائے کہ مسلمان ذلیل و خوار ہو جائیں اور کفار کو نیچا دکھانے کے قابل نہ رہیں بلکہ کفار میں مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی جسارت پیدا ہو جائے۔اس بات میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ اگر علی و معاویہ کے مابین جنگ صفین پیش نہ آتی۔[3] [اور دونوں حضرات اپنے اپنے علاقہ پر قابض رہتے]
Flag Counter