Maktaba Wahhabi

550 - 645
گناہ کے ساتھ عصمت تو ثابت تھی؛ مگر کوئی ضمانت حاصل نہیں تھی۔ ان کی حالت اہل حرب کی خواتین اور بچوں کے جیسی تھی۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور بعض مالکیہ رحمہم اللہ کا قول ہے۔ پھر جمہور علماء جیسے امام مالک؛ امام ابو حنیفہ اور أحمد رحمہم اللہ کا ظاہری مذہب اور امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ ہے : ’’ بیشک اہل عدل اور باغی جب آپس میں تأویل کی بنا پر برسر پیکار جنگ ہوں ؛ تو حالت جنگ میں ان میں سے ایک گروہ کی طرف سے دوسرے گروہ کا جو نقصان ہوجائے؛ خواہ وہ جانی نقصان ہو یامالی ؛ اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔ کوئی ایک گروہ کسی دوسرے گروہ کا نقصان پورا نہیں کرے گا۔ حضرت امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جب جنگ کا فتنہ واقع ہوا تو اس وقت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وافر مقدار میں موجود تھے؛ اس بات پر ان کااتفاق ہوگیا کہ ہر وہ خون اور مال جو تأویل قرآن کی وجہ سے ہوا؛ وہ رائیگاں ہے ۔‘‘اور اسے وہ جاہلیت کا سا معاملہ قرار دیتے تھے۔ یعنی جب قاتل اس فعل کو حرام خیال ہی نہیں کرتا تھا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ: یہ کام نفس امر میں حرام تھا؛ تو یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ یہ ثابت ہے اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جب حربی کافر جب کسی مسلمان کو قتل کردے؛ یا اس کے مال کا نقصان کردے ؛ اور پھر وہ اسلام قبول کرلے؛ تو نہ ہی اس پر ضمان ہوگی نہ ہی قصاص اور نہ ہی دیت۔ اور نہ ہی کفارہ ۔ حالانکہ اس مسلمان کو قتل بڑے ہی کبیرہ گناہوں میں سے ایک تھا۔ مگر چونکہ وہ تأویل کا شکار تھا ؛ بھلے وہ فاسد تاویل تھی۔ صحیحین میں حدیث افک میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس مرد کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر میں گئے تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں ۔ اس پر سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا کہ :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کی مدد کروں گا اور اگر وہ شخص قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی خزرج میں کا کوئی آدمی ہے تو آپ ہمیں حکم دیں ، تعمیل میں کوتاہی نہیں ہو گی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے؛ لیکن آج ان پر قومی حمیت غالب آ گئی تھی [عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق] ان ہی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا؛ انہوں نے اٹھ کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا ہے تم اسے قتل نہیں کر سکتے، تم میں اس کے قتل کی طاقت نہیں ہے۔ پھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے وہ سعد بن معاذ کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا : اللہ کی قسم! تم جھوٹ بولتے ہو، ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیا تم منافق ہو گئے ہو کہ منافقوں کی طرفداری میں لڑتے ہو؟‘‘ اتنے میں دونوں قبیلے اوس و خزرج اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس ہی میں لڑنے تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ
Flag Counter