Maktaba Wahhabi

529 - 645
میں سے وہ زیادہ مناسب کو اختیار کرتا ہے۔ یہ اختیار شہوت کی بنا پر نہیں ہوتا۔ جیسا کہ امام ؍ حاکم کو جنگی قیدیوں کے بارے میں اکثر علماء کے نزدیک تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہوتاہے: وہ ان کو قتل کردے ؛ غلام بنالے ؛ یا پھر احسان کرتے ہوئے رہا کردے ۔ بلا شک وہ شبہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ﴿ فَاِِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِِمَّا فِدَائً﴾ (محمد ۳) ’’ پھر بعد میں یا تو احسان کرنا ہے اور یا فدیہ لے لینا۔‘‘یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ ایسے ہی ان لوگوں کے بارے میں اختیار جو دشمن اس سالار کے فیصلہ پر راضی ہو جائیں ۔ جیسا کہ بنو قریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر قلعوں سے اتر آئے تھے۔ تو اوس میں سے ان کے حلفاء نے عرض کی کہ : جیسے خزرج کے حلفاء بنو نضیر پر احسان کیا گیا تھا؛ ایسے ہی ان پر بھی احسان کرکے چھوڑ دیا جائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہونگے کہ میں ان کے بارے میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو فیصلہ کرنے والا بنادوں ؟ تو اوس اس پر راضی ہوگئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ کے پاس آدمی بھیج کرانہیں بلالیا۔ آپ سوار ہوکر تشریف لائے۔ وہ اس وقت زخمی ہونے کی وجہ سے مسجد میں زیر علاج تھے ۔بنو قریظہ مدینہ کی مشرقی جانب آدھے دن کے فاصلے پر ؛ یا اس کے لگ بھگ دور تھے۔ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تشریف لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ ۔‘‘تو لوگ کھڑے ہوگئے۔ راستہ میں آپ کے قرابت دارآپ سے یہی گزارش کرتے رہے کہ ان پر احسان کیا جائے۔ اور انہیں عہد جاہلیت میں ان کی مدد و نصرت یاد دلاتے رہے۔ جب آپ وہاں پہنچ گئے تو فرمایا: ’’ بیشک اب سعد کے لیے وہ وقت آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو حکم دیا کہ ان کے بارے میں فیصلہ کریں ۔ تو آپ نے یہ فیصلہ فرمایا : ’’ان کے جنگجوؤں کو قتل کیا جائے؛ اور ان کے بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے مال کو مال غنیمت بنا لیا جائے۔‘‘تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ یقیناً تم نے ان کے بارے میں سات آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔‘‘[یہ حدیث صحیحین میں ثابت ہے] ایک دوسری حدیث جسے صحیح مسلم میں روایت کیا گیاہے؛ اس میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ نے فرمایا: ’’جب تم کسی قلعہ والوں کو محاصرہ کرلو اور وہ قلعہ والے یہ چاہتے ہوں کہ تم انہیں اللہ کے حکم کے مطابق قلعہ سے نکالو تو تم اللہ کے حکم کے مطابق نہ نکالو بلکہ انہیں اپنے حکم کے مطابق نکالو کیونکہ تم اس بات کو نہیں جانتے کہ تمہاری رائے اور اجتہاد اللہ کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں ۔‘‘[1]
Flag Counter