Maktaba Wahhabi

52 - 645
مروی ہوئیں جو ان منافقوں کے بارے میں مروی نہ ہوئیں ۔ جو زبان سے کچھ کہتے ہیں اور دل میں کچھ اور رکھتے ہیں ۔ غرض یہ بات ظاہر ہو گئی کہ آدم نے موسیٰ کے سامنے تقدیر کو مصائب اعتبار سے حجت پکڑا جو انہیں اور ان کی ذریت کو لاحق ہوئے، اور مصیبت ایک قسم کی جزع فزع لاتی ہے جو مصیبت کا سبب بننے والے کی ملامت کو مقتضی ہوتی ہے۔ سو ان کے سامنے یہ ظاہر ہو گیا کہ یہ مصیبت اور اس کا سبب مقدور اور مکتوب تھا، اور بندہ امرِ الٰہی پر صبر کرنے کا مامور ہے، اور اسے تسلیم و رضا کا حکم ہے کہ یہ بھی رب تعالیٰ کے اوامر میں سے ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ﴾ (التغابن: ۱۱) ’’کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘ اسلاف اکابر جیسے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: یہ وہ شخص ہے جسے مصیبت پہنچتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور وہ تسلیم و رضا سے رہتا ہے۔ اس مصنف نے جو یہ کلام کہا ہے اور اس کلام اسے کہا جاتا ہے جو تقدیر کو گناہوں پر آڑ بناتا ہے اور پھر یہ بھی جانتا ہے کہ یہ دلیل صریح عقل کی رو سے ایمان بالقدر کے ساتھ ہر ایک کے نزدیک باطل ہے۔ اس دلیل کا بطلان تکذیب بالقدر کو لازم نہیں ۔ کیونکہ نبی کی جبلت میں جلبِ منفعت اور دفع مضرت شامل ہے۔ ان کی زندگی اور دین و دنیا کی صلاح و فلاح اسی میں ہے۔ وہ اسی بات کا امتثال کریں گے جس میں ان کی منفعت کا حصول اور مضرت کا فعیہ ہو۔ چاہے کوئی رسول ان کی طرف مبعوث ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ لیکن نفع و ضرر کا علم ان کے مقاصد اور عقول کے بقدر ہوتا ہے، اور رسولوں کی بعثت مصالح کی تکمیل اور مفاسد کی تقلیل و تعطیل کے لیے ہوتی ہے۔ یوں رسولوں کے پیروکار اس باب میں سب سے کامل ترین انسان ہوتے ہیں ۔ جبکہ رسولوں کے جھٹلانے والے اس کے برعکس سب سے نکمے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ مفاسد کے پیچھے چل کر اپنی مصالح کو برباد کر بیٹھتے ہیں ۔ یہ بدترین لوگ ہوتے ہیں ۔ پھر اس کے ساتھ متعدد امور انہیں لازم ہوتے ہیں جن کو یہ لیتے ہیں اور متعدد امور ایسے ہوتے ہیں جن سے اجتناب کرتے ہیں ، او ریہ سب ان امور کو دفع کرتے ہیں جو ان ضرر پہنچاتے ہیں ۔ جیسے ظلم اور فواحش وغیرہ۔ لہٰذا اگر ان میں سے ایک دوسرے کی جان، مال، عزت و آبرو پر کوئی ظلم ڈھائے تو وہ اس سے قصاص کا مطالبہ کرتا ہے، اور اسے سزا دیے جانے کا خواہاں ہوتا ہے، اور کوئی عقل والا اس باب میں دوسرے سے قدر کے عذر کو قبول نہیں کرتا۔ لہٰذا اگر کوئی ظالم یہ کہے کہ یہ میرے مقدر میں تھا جو میں نے کہا۔ میرے عذر قبول کرو۔ تو دوسرے اسے یہ کہتے ہیں کہ اگر تیرے ساتھ ایسا ہو اور ظالم تقدیر کا عذر کرے تو خود تو اس کے عذر کو نہ مانے گا۔ اس دلیل کو ماننا وہ فساد لاتا جس کے ہوتے ہوئے صلاح ممکن نہیں ۔ تو جب تقدیر کو حجب بنانا سب لوگوں اور ان کی عقلوں کے نزدیک مردود ہے۔ حالانکہ سب لوگ تقدیر کے قائل بھی ہیں تو معلوم ہوا کہ تقدیر کو ماننا یہ تقدیر کو دلیل بنانے کو دفع کرنے کے مناض نہیں ۔ بلکہ اس پر ایمان لازم ہے۔ البتہ اس کو دلیل بنانے کو رد کرنا بھی لازم ہے۔ سو جب جدل حق
Flag Counter