Maktaba Wahhabi

514 - 645
آپ مکہ جارہے تھے۔[اور یہ مدینہ کے راستہ میں تھے]ابھی مدینہ نہیں پہنچے تھے۔ اور ایسے ہی ابو سفیان بن الحارث؛ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد تھا ؛یہ ابو سفیان بن حرب کے علاوہ ایک دوسرا ہے؛ یہ شاعر تھا ؛ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا۔اسے بھی آپ نے راستہ میں پایا۔ یہ اچھے مسلمانوں میں سے ہوگیا تھا۔ یہ اور عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہما حنین کے موقع پر اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے تھے جب لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی مہار پکڑی ہوئی تھی۔ جب اہل سنت والجماعت کے ہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ مراتب ہیں ؛ جیسا کہ کتاب و سنت کے دلائل سے واضح ہے ۔ اور اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے ہمنوا دوسرے لوگ وہ ہیں جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ؛ جن کا اسلام لانا حدیبیہ والوں سے متاخر ہے ۔ اور حدیبیہ والوں کا اسلام سابقین اولین سے متاخر ہے [اسی لحاظ سے ان کے فضائل و مناقب ہیں ] ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں ۔ خلفاء ثلاثہ کے علاوہ کسی کو آپ پر فضیلت حاصل نہیں ۔ تو پھر اہل سنت والجماعت پر کس منہ کے ساتھ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برابر سمجھتے ہیں یا آپ پر تقدیم و فضیلت دیتے ہیں ؟ ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مروانیہ اور دوسرے لوگوں کا ایک گروہ تھا۔ جنہوں نے آپ کے ساتھ مل کر قتال کیا ؛ اور ان کے بعد ان کے ماننے والے کہتے ہیں : ’’ بیشک آپ [حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ] اس قتال میں اصابت رائے والے مجتہد اورحق پر تھے ۔‘‘ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی یا تو ظالم تھے؛ یا پھر مجتہد تھے ؛ مگر اجتہاد میں خطأ پر تھے۔ اس بارے میں انہوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں جیسے جاحظ کی تصنیف کردہ کتاب ’’ المروانیہ ۔‘‘اور ایک گروہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل گھڑلیے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی روایتیں نقل کیں جو کہیں بھی ثابت نہیں ۔ اس بارے میں ان کی بڑی بڑی حجتیں ہیں جنہیں بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ لوگ غلطی پر ہیں ۔ اگرچہ رافضیوں کی غلطی ان کی غلطی سے بہت بڑھ کرہے۔ رافضیوں کے لیے یہ ہر گز ممکن نہیں ہے کہ وہ امامیہ مذہب پر عقیدہ رکھتے ہوئے ان لوگوں کے دلائل کا رد کرسکیں ۔ اس لیے کہ امامیہ کے دلائل میں تناقض پایا جاتا ہے۔ایسے دلائل سے استدلال کرتے ہیں جنہیں خود ہی دوسرے موقع پر توڑدیتے ہیں ۔ عقلی اور سمعی دلائل سے حجت لیتے ہیں ؛ اور جو چیز اس سے بڑھ کر ہے؛[یعنی کتاب و سنت] اس کا انکار کرتے ہیں ۔بخلاف اہل سنت والجماعت کے ؛ ان کے دلائل صحیح اور اپنے موقع محل پر درست ہوتے ہیں ۔ [ اہل سنت و الجماعت کے ساتھ ان روافض کا معاملہ ایسے ہی ہے ] جیسے مسلمانوں کیساتھ عیسائیوں اور دیگر اہل کتاب کا معاملہ۔ اہل سنت و الجماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصرت میں ان کی مذمت کرنے والوں اور بغض رکھنے والوں ؛ یا آپ سے برسر پیکار لوگوں کو حق پر کہنے والوں پر حجت قائم کر سکتے ہیں ۔جیسا کہ مسلمانو ں کے لیے یہ ممکن ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو جھٹلانے والے یہودیوں اور دوسرے لوگوں پر حجت قائم کرسکیں ۔ بخلاف نصاری کے۔اس لیے کہ عیسائی حضرت
Flag Counter