Maktaba Wahhabi

485 - 645
بفرض محال اگر ایسا ہوا بھی تھا تو جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بات کی اجازت طلب کرتے تھے کہ جنگ جمل و صفین میں جو لوگ ان کے حریف ہیں ان کو قیدی بنایا جائے اور ان کے مال کو مال غنیمت تصور کیا جائے وہ رفقائے عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت بڑے مجرم تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جن لوگوں کو قیدی بنانا پیش نظر تھا ان میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر خواتین بھی تھیں ۔ علاوہ ازیں جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ مطالبہ کر رہے تھے وہ دینی اعتبار سے اسے جائز سمجھتے اور اس پر اصرار کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے افکار و آراء سے متفق نہ ہوئے۔ تو انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور ان کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔اس کے برعکس جس شامی نے فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہا کو قیدی بنانا چاہا تھا وہ ایک محروم اقتدار غیر معروف آدمی تھا۔ نیز یہ کہ وہ شخص دینی حیثیت سے نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ جب حاکم با اختیار نے اس سے روکا تو وہ اس سے باز رہا۔ خلاصہ کلام! مسلمانوں کے خون ناموس و آبرو اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حلال قرار دینے والوں کی تعداد اموی فوج کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں زیادہ تھی۔ اس بات پر سب لوگوں کا اتفاق ہے۔ خوارج ہی کو دیکھئے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے الگ ہو گئے تھے۔ یہ عسکر معاویہ رضی اللہ عنہ کے شریر ترین لوگوں سے بھی شریر تر تھے ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف جنگ لڑنے کا حکم دیاتھا[1] اور سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء کرام رحمہم اللہ نے ان کے خلاف صف آراء ہونے پر اجماع منعقد کر لیا تھا۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ روافض خوارج سے بھی زیادہ جھوٹے، ان سے بڑے ظالم اور کفر و نفاق اور جہالت میں بھی ان پر سبقت لے گئے ہیں ۔ علاوہ ازیں روافض خوارج کی نسبت عجز و ذلت میں بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ یہ دونوں فریق حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کی فوج سے وابستہ تھے۔ یہی لوگ تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کمزوری کا سبب قرارپائے اور آپ اپنے حریفوں کے مقابلہ سے عاجز رہے۔ ہمارا مقصد یہاں یہ بتانا ہے کہ شیعہ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو جن اعتراضات کا نشانہ بناتے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ان سے بھی زیادہ اہم اعتراضات وارد ہوتے ہیں ۔ اگر شیعہ یہ جواب دیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مجتہد تھے؛ بنا بریں وہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کی نسبت اقرب الی الحق تھے۔ تو ہم کہیں گے: طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما بھی مجتہد تھے۔ اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما سے افضل تھے تاہم اگر عائشہ رضی اللہ عنہا کی امداد کیلئے ان کا مدینہ سے نکلنا گناہ کا کام تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اقدام اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ اگر شیعہ کہیں کہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما چونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو لے کر لڑنے کے لیے آگئے تھے اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فعل کی ذمہ داری ان دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ تو اہل سنت اس کے جواب میں یہ مثال پیش کر سکتے ہیں کہ جب
Flag Counter