Maktaba Wahhabi

462 - 645
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر نہیں بلکہ آپ کی بیعت وخلافت پر منعقد ہوا تھا۔[1] تمام ملک کے رہنے والے آپ کی بیعت پر یک زبان تھے ۔ اگر ظاہری اجماع سے دلیل لینا جائز ہے تو پھر واجب ہوتا ہے کہ آپ کی بیعت بھی حق ہو ‘ اس لیے کہ آپ کی بیعت پر تمام لوگوں کا اجماع ہوگیا تھا۔ اگر اس سے استدلال لینا جائز نہیں تو پھر آپ کے قتل پر اجماع کا کہنا کھلم کھلا ایک باطل بات ہے۔ خصوصاً جب کہ آپ کو قتل کرنے والے چند ایک فسادی لوگ تھے۔ پھر اس پر مزیدار بات تو یہ ہے کہ شیعہ آپ کی بیعت خلافت پر اجماع کے منکر ہیں ‘اور کہتے ہیں : اہل حق نے زبردستی اور خوف کے مارے آپ کی بیعت کی۔[ مگر قتل پر اجماع ثابت کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں ]۔ اس کے بجائے اگر یوں کہتے کہ :’’ اہل حق آپ کے قتل پر متفق تھے: اور اہل حق کو زبردستی آپ کے قتل میں شریک کیا گیا اوروہ اس پر اپنی کمزوری کی وجہ سے خاموش رہے۔ تو پھر بھی ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ بات کسی حد تک ممکن ہے۔ اس لیے کہ لوگ یہ بات جانتے ہیں جو کوئی حکومت سے ٹکرا کر تختہ الٹنا چاہتا ہو‘ عام لوگ اس کی مخالفت کرنے سے ڈرتے ہیں ۔بخلاف اس کے جو کوئی حاکم کی بیعت کرنا چاہتا ہو۔اس لیے کہ اسے کسی مخالف سے نہیں ڈرایا جا سکتا۔ جیسے کہ اس انسان سے ڈرایا جاسکتا ہے جو کسی کو قتل کرنا چاہتا ہو۔ کیونکہ قتل کا ارادہ رکھنے والے کا شر زیادہ تیز ہوتا ہے ‘ اور وہ خون بہانے میں دریغ نہیں کرتا ؛ لوگ اس سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ [فرض محال شیعہ کی بات تسلیم کرتے ہیں ] کہ تمام لوگوں کا آپ کے قتل پر اجماع ہوگیا تھا؛ توپھر اس کا کیا جواب دو گے کہ جمہور صحابہ کرام آپ کے قتل کا انکار کرتے تھے۔اور جن لوگوں نے آپ کے گھر میں رہتے ہوئے آپ کا دفاع کیاجیسے حضرت حسن و حسین حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ؛ یہ علیحدہ داستان ہے۔ مزید برآں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جو اجماع منعقد ہوا ایسا اتفاق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت وخلافت اور قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر اور دوسرے کسی معاملہ میں نہیں ہوا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت سے صرف چند اشخاص پیچھے رہے تھے۔ جن میں سے ایک حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے رہ جانے کا سبب معلوم ہے۔ (واللہ یغفرلہٗ ویرضی عنہ) ۔ آپ سابقین اولین انصار میں سے ایک نیک فرد تھے جنہیں جنت کی بشارت سنائی گئی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے واقعہ افک والی روایت میں ہے آپ فرماتی ہیں : ’’ آپ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کا دفاع کرنے لگے۔ اس سے قبل آپ ایک نیک انسان تھے ؛ مگر قبائلی حمیت کی وجہ سے ان سے اس حرکت کاارتکاب ہوگیا ۔‘‘ ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ جس آدمی کے لیے جنت کی شہادت دی گئی ہو وہ بعض اوقات گناہ کا مرتکب بھی ہوتا ہے[ اس لیے کہ وہ معصوم نہیں ]۔مگر پھر وہ ان سے توبہ کرلیتاہے؛ یا اس گناہ کو اس کی نیکیاں مٹا دیتی ہیں ۔ یا مصائب و آلام اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں ؛ یا کوئی دوسرا سبب ایسا پیدا ہوجاتا ہے۔
Flag Counter