Maktaba Wahhabi

452 - 645
ہے کہ کوئی شخص صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرکے پھر اس سے سچی توبہ کرلے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کے یہاں متفق علیہا ہے۔ اگر توبہ نہ بھی کرے تو صغیرہ گناہ، کبائر سے اجتناب کرنے کی بنا پر بھی معاف کردے جاتے ہیں ۔ یہ جمہور کا مذہب ہے ۔ اکثر علماء کے نزدیک کبائر، اعمالِ صالحہ بلکہ حوادث و آلام میں گرفتار ہونے کی بنا پر بھی معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ بنابریں اہل سنت کہتے ہیں کہ: صحابہ رضی اللہ عنہم کی جو برائیاں بیان کی جاتی ہیں ان میں سے اکثر جھوٹ ہیں ۔اور اکثر ان کے اجتہاد پر مبنی ہیں ۔ مگر بہت سارے لوگوں کو وجہ اجتہاد معلوم نہیں ہوسکی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مفروضہ گناہوں میں سے بعض توبہ کی بنا پر اور بعض اعمال صالحہ اور حوادثِ روزگار یا کسی اور وجہ سے معاف کیے جا چکے ہیں ۔ اس کی دلیل وہ احادیث ہیں جن سے ان کا جنتی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ ایسے افعال کا ارتکاب نہیں کر سکتے جو دوزخ میں جانے کے موجب ہوں ۔ ظاہر ہے کہ جب انھوں نے موجبات نار سے اپنا دامن بچائے رکھا تھا؛اور ان کی موت ایسے اعمال پر نہیں ہوئی جو جہنم میں جانے کا موجب ہوں توکوئی دوسری چیز ان کے جتنی ہونے میں قادح نہیں ہوسکتی[ تو وہ یقیناً جنتی ٹھہریں گے] وثوق و یقین سے یہ جاننے کے باوجود کہ صحابہ قطعی جنتی ہیں ۔اگرہمیں کسی متعین صحابی کے جنتی ہونے کا علم حاصل نہ بھی ہو پھر بھی ہم غیر یقینی امور کی بنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی نفی نہیں کرسکتے۔ بلکہ ایک عام مومن ؛ جس کا حتمی طور پر جنتی ہونا دو ٹوک طور پر معلوم نہ بھی ہو تب بھی اس کے جنتی ہونے کی نفی کرنا جائز نہیں ۔ اسی طرح صرف احتمال کے بل بوتے پر کسی کو دوزخی قرار دینا بھی ناروا ہے۔ خصوصاً صلحاء کے بارے میں ایسی بات کہنا بڑی مذموم حرکت ہے۔ کسی فرد واحد کے ظاہر و باطن اور اعمالِ صالحہ و سیئہ کی تفصیلات معلوم کرنا بڑا دشوار کام ہے ۔ اس لیے اس ضمن میں کوئی فیصلہ صادر کرنا بلا علم و دلیل ہے اور کلام بلا علم حرام ہے۔ اسی بنا پر مشاجرات ِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے زبان کو روکنا اس ضمن میں اظہار خیال سے افضل ہے۔ اس لیے کہ اس معاملہ میں زیادہ غورو خوض کرنا اور کلام کرنا بلا علم ہے۔ جو کہ حرام ہے۔ خصوصاً جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ہوائے نفس اور حق سے روگردانی بھی شامل ہو۔پھر جب کلام ہی صرف اس نیت سے کیا جائے کہ ہوائے نفس کو طیش دینا اور حق کو ٹھکرانا مقصود ہو تو پھر اس کی حرمت کا کیا عالم ہوگا؟ ۔سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’قاضی تین ہیں ، ان میں سے دو قاضی جہنمی اور ایک جنتی ہے: ۱۔ جو قاضی حق کو معلوم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرے وہ جنتی ہے۔ ۲۔ وہ قاضی جو حق سے آگاہ ہو اور دانستہ اس کے خلاف فیصلہ کرے وہ دوزخی ہے۔ ۳۔ جو شخص جہالت کی بنا پر فیصلہ کرے وہ جہنمی ہے۔‘‘[1]
Flag Counter