Maktaba Wahhabi

424 - 645
صدقات کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان صدقات کے اصل مال کا مالک بن جائے۔ اور یہ جائز ہے کہ اس کے نفع کو ایسے تقسیم کیا جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ۔ پس جو مال حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے طلب کیا تھا ‘ وہ اسی قسم سے تعلق رکھتا ہے جو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کے لیے تھا ۔ بخلاف اصول اموال کے۔ اسی لیے حضرت ابوبکر و عمر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹوں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو اورحضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو اور دیگر بنی ہاشم رضی اللہ عنہم کو بیت المال سے اس سے بہت زیادہ دے دیا کرتے تھے جیسے جابر رضی اللہ عنہ کو دیا۔یہ مال مسلمانوں کے درمیان میں تقسیم کے لیے ہوا کرتاتھا۔بھلے ان میں سے کسی کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کوئی عہد و پیمان نہ بھی ہو [تب بھی یہ مال انہیں ملا کرتا تھا ]۔ جاہل رافضی کا یہ قول کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے بیت المال سے بغیر کسی گواہی اور دلیل کے صرف اپنے دعوی کی بنیاد پر مال لے لیا ؛ یہ ایسے جاہل انسان کا کلام ہوسکتا ہے جواس بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ جانتا ہو۔اس لیے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو جو مال دیا گیا اس کا تعلق ان اموال سے تھا جن کا مسلمانوں کے مابین تقسیم کیا جانا واجب تھا۔ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بھی مسلمانوں میں سے ایک ہیں ۔ اور ان کا اس مال میں حق بھی تھا۔ وہ بیت المال کے شرکاء میں سے ایک ہیں ۔ جب مسلمان حاکم مسلمانوں میں سے کسی ایک کو مسلمانوں کے بیت المال میں سے کچھ مال دے دے تو یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے بغیر کسی دلیل کے مسلمانوں کے بیت المال میں سے مال دے دیا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے اور انہیں عطیات دینے کے لیے کسی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بخلاف اس کے کہ کوئی انسان تمام مسلمانوں کے برعکس کسی اصل مال کا ہی دعوی کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان حکمران کو اپنے اجتہاد و تقدیر سے مال تقسیم کرنے کی اجازت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حثیات بھر بھر کر مال تقسیم کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ حثیات ایک قسم کا پیمانہ ہے [اس کا لفظی ترجمہ بھری ہوئی لپیں ہے ۔دراوی]۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تین حثیات بھر کردینے کا وعدہ فرمایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں یہ عام سا فعل ہے [اس لیے کہ آپ لوگوں کو ایسے ہی نوازا کرتے تھے ]۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے صرف وہی چیز بیان کی تھی جس کا آپ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و اتباع کرنی چاہیے تھی۔پس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اتنا دیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا۔[1]
Flag Counter