Maktaba Wahhabi

421 - 645
ہے ۔ اس بارے میں وارد احادیث کثرت کے ساتھ اور بہت مشہور ہیں ۔ بلکہ کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ہے : ((عنقریب میرے بعد حقوق تلف کئے جائیں گے[ اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں تم ناپسند کرتے ہو] پس تم صبر کرتے رہنا یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے آملو)) [1] ایک دوسری روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم پر کسی کا جو حق ہو وہ ادا کر دو اور اپنے حقوق تم اللہ سے مانگتے رہنا۔‘‘[2] اس طرح کی دیگر بھی کئی ایک روایات ہیں ۔ اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ظالم تھے ‘ وہ اپنی ذات کے لیے لوگوں کامال چھیننا چاہتے تھے تو اس کے باوجود احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان کے ظلم پر صبر کرنا اور نیکی کے کاموں میں ان کی اطاعت کرنا واجب تھا۔ پھر اگر یہ اعتراض کرنے والا حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما پر طعن و تنقید اور جرح و قدح کرنا شروع کردے ‘ او رکہے کہ : ان لوگوں نے صبر نہیں کیا [جیسا کہ احادیث مبارکہ میں حکم تھا] اور انہوں نے جماعت کا ساتھ چھوڑ دیا بلکہ انہوں نے جماعت میں تفریق پیداکی جو کہ بہت بڑا گناہ ہے ۔تویقیناً یہ جرح حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر روافض کی جرح نسبت زیادہ معقول اورحق پر ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے خلاف کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس کی روشنی میں واجب آتا ہو کہ آپ نے کسی واجب کو ترک کیا ہواوریا کسی حرام کاارتکاب کیا ہو ۔ اور جس دلیل سے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس معصیت سے مبراء و منزہ مانا جائے گا ‘ اسی دلیل کی روشنی میں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کسی بھی ظلم و معصیت سے بدرجہ اولی منزہ و مبرا ہوں گے ۔ اور جو شبہ بھی حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما پر وارد ہوگا کہ آپ نے واجب کو ترک کیا یا کسی حرام فعل کا ارتکاب کیا ؛تو وہ شبہ زیادہ قوت اور زور کے ساتھ حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما پر بھی وارد ہوگا۔ کوئی انسان اگر حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کو گناہوں سے پاک اور معصوم قراردیکر ان کی مدح سرائی اورتعریف و توصیف بیان کرے ؛ اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گنہگا ر ‘اور ناقابل مغفرت و بخشش خیال کرتا رہے تویہ اس کی طرف سے سب سے بڑا ظلم اور جہالت ہوگی۔ وہ ان لوگوں سے بھی بڑھ کر جاہل ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات پر طعن و تشنیع کرنے لگے۔ آٹھویں وجہ:....شیعہ مصنف کا قول:’’ اگر حدیث ’’ لا نُورِث‘‘ صحیح ہوتی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار،خچر اور عمامہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دعویٰ کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تفویض نہ فرماتے۔‘‘ جواب : ہم پوچھے ہیں کہ: حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے یہ فیصلہ کب فرمایا تھا؟ اور کس نے یہ واقعہ نقل کیا ہے ؟ یہ ان پر صریح بہتان ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اشیاء جہاں تھیں وہاں رکھی رہتیں اور کوئی ان کا مالک قرار نہ پاتا۔
Flag Counter