Maktaba Wahhabi

417 - 645
’’ جو چیز فاطمہ رضی اللہ عنہا کو شک میں مبتلا کرتی ہے وہ مجھے بھی شبہ میں ڈالتی ہے اور جس بات سے فاطمہ کو دکھ پہنچے وہ میرے لیے بھی رنج و الم کی موجب ہے۔‘‘ حدیث میں آپ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے : ’’جو اسے شک میں ڈالتی ہے۔اور جو چیز اسے ایذا دیتی ہے اس سے مجھے بھی دکھ پہنچتا ہے۔‘‘ یہ بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تکلیف محض اس لیے پہنچی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اگر یہ وعید ایذا دینے والے کو لاحق ہو سکتی ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس وعید کی لپیٹ میں آنا ضروری ہے۔ اور اگر اس کا احتمال نہیں ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت اس وعید سے بعید تر ہوں گے۔ اگر شیعہ کہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ ترک کرکے اس سے توبہ کر لی تھی۔ تو ہم کہیں گے کہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا غیر معصوم ہونا لازم آتا ہے۔ نیز یہ کہ اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذاء کا ازالہ توبہ سے ہو سکتا ہے تو اس کے علاوہ دیگر نیک اعمال بھی یقیناً اس کو محو کر سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ اعمال صالحہ مصائب و آلام اور توبہ سے تو اس سے بھی بڑے گناہ ختم ہو سکتے ہیں ۔ مزید براں یہ گناہ کفر نہیں ہے کہ بلا توبہ معاف نہ ہو سکتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مرتد ہو چکے ہوتے ۔(العیاذ باللہ) ۔جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے مبرا و منزہ قرار دیا ہے۔[اس لیے آپ کا مومن و مسلم ہونا ایک یقینی امر ہے]۔ خوارج جنھوں نے آپ کے مرتد ہونے کا دعویٰ کیا تھا وہ بھی یہی کہتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام سے منحرف ہو گئے۔انہوں نے یہ نہیں کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں ہی مرتد ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عہد نبوی میں مرتد ہونے والے کو یا قتل کردیا جاتا تھایا وہ پھر دین اسلام کی طرف لوٹ آتا تھا۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن اس سے پاک رہا۔اگر آپ کا یہ فعل شرک سے کم ترتھاتویہ جان لینا چاہیے کہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النساء:۱۱۶) ’’ اﷲمعاف نہیں کرتا کہ اس کیساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے کم جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔‘‘ اگر شیعہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کفر ثابت کرنے کے لیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذاء کو کفر قرار دیں تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی کافر ہونا لازم آئے گا اور جب لازم باطل ہے تو ملزوم کے بطلان میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ شیعہ کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ حضرت ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی عیب چینی کرتے ہیں ؛اور ایسے امور کی بنا پر ان کی تکفیر کرتے ہیں جن کی مثل بلکہ اس سے بھی پرے بلاعذر افعال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صادر ہو چکے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان افعال میں اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ماجور یا معذور ہیں تو خلفاء ثلاثہ بالاولیٰ اجر یا عذر کے مستحق ہوں گے اور اگر کسی معمولی امر کی بناء پر خلفاء ثلاثہ فاسق یا کافر قرار پائیں گے تو کیا وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سے شنیع تر فعل کے
Flag Counter