Maktaba Wahhabi

398 - 645
ان کے علاوہ دیگر امور میں ۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تواب سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاؤٗدَ ﴾’نیز : ﴿ یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْب﴾ ان میں لفظ ارث جنس وراثت پر دلالت کرتا ہے ۔مالی وراثت پر دلالت نہیں کرتا۔ پس ان آیات سے خاص طور پر مالی وراثت پر استدلال کرنا مصنف کی وجوہ دلالت سے جہالت کی نشانی ہے ۔ جیسا کہ اگر کہا جائے : یہ شخص اس کا خلیفہ ہوگا۔ اور اس نے اسے اپنے بعد چھوڑا ہو۔ تو اس سے مطلق خلافت پر دلالت ہوتی ہے؛ اس میں کہیں بھی یہ دلیل نہیں ہے کہ وہ اس کے مال کا یا اس کی عورت و اہل خانہ کا یا اس کی املاک کا وراث بنے گا۔ تیرھویں وجہ: ....ہم ان نصوص صریحہ کی روشنی میں کہتے ہیں کہ: زیر تبصرہ آیت میں مالی ورثہ مراد نہیں ، بلکہ علم و نبوت کی میراث مقصود ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاؤٗدَ ﴾ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت سلیمان کے سوا حضرت داؤد کے متعدد بیٹے اور بھی تھے، اگر مالی ورثہ مراد ہوتا تو وہ تنہا حضرت سلیمان علیہ السلام کو نہ ملتا ۔ علاوہ ازیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے مالی ورثہ پانے میں کسی کی مدح و ستائش نہیں کی جارہی نہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی اور نہ حضرت داؤد علیہ السلام کی۔ اس لیے کہ نیک و بد سبھی اپنے والد کا مالی ورثہ پاتے ہیں ؛ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی کیا خصوصیت ہے؟ حالانکہ آیت کا سیاق حضرت سلیمان علیہ السلام کی مدح اور ان کی خصوصیات کا متقاضی ہے۔ ظاہر ہے کہ مالی میراث ایک عام چیز ہے جو سب لوگوں کے یہاں مشترک ہے؛ جیسے کھانا پینا؛ میت کودفن کرنا ۔ لہٰذا اس طرح کے امور کا انبیاء کرام علیہم السلام کے متعلق ذکر و بیان عبث اور کسی فائدہ سے خالی ہے۔بلکہ وہ چیز بیان کی جاتی ہے جس میں عبرت اور فائدہ ہو۔ وگرنہ کوئی کہنے والا کہے : فلاں انسان مرگیا اور اس کا بیٹا اسکے مال کا وارث بنا ۔‘‘ ٭ یہ تو اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے : اسے دفن کیا؛ او رکوئی کہے : انہوں نے کھایا پیا اور سو گئے ؛ یعنی اس طرح کی باتیں جن کا ذکر کرنا [بے موقع اور بے فائدہ ہے] قرآن کے ساتھ اچھا نہیں لگتا۔ اسی طرح زکریا علیہ السلام کے متعلق آیت قرآنی : ﴿ یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ﴾ (مریم: ۶) اس آیت میں بھی مالی ورثہ مراد نہیں ، اس لیے کہ حضرت یحییٰ نے آل یعقوب سے مالی میراث حاصل نہیں کی تھی، بلکہ یہ میراث ان کی اولاد اور دیگر ورثہ نے پائی ہوگی؛ اگر ایسا ہوگا۔[ورنہ انبیاء کرام علیہم السلام کی مالی وراثت نہیں ہوتی]۔اور نبی اللہ زکریا علیہ السلام نے بیٹا اس لیے طلب نہیں کیا تھا کہ ان کے مال کا وارث بنے۔اس لیے کہ اگر مالی وراثت مراد ہوتی تو لازمی طور پر یہ مال آپ سے دوسرے لوگوں کو منتقل ہونا ہی تھا خواہ وہ آپ کا بیٹا ہو یا کوئی اور ہو۔نیز یہ کہ اگر اس سے مقصود یہ ہوتا کہ صرف بیٹاہی مالی وارث بنے ؛ تو اس سے لازم آتا کہ بیٹے کے علاوہ کوئی دوسرا وارث نہ بنے ۔ ایسا کوئی بخیل سے بخیل انسان بھی نہیں کرسکتا ۔اس لیے کہ اگر بیٹا موجود ہو تو اسے دیا جاتاہے۔اس لیے کہ اس کا مقصود ہی بیٹے کو نوازنا ہے۔اور اگربیٹا نہ ہو تو؛ پھربیٹے سے صرف یہ مراد نہیں ہوسکتی کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرایہ مال نہ
Flag Counter