Maktaba Wahhabi

39 - 645
مال چھین لیتا یا عزت لوٹ لیتا یا اس کی اولاد کو قتل کر دیتا، یہ اس پر ظلم کرنے پر اڑا رہتا اور لوگ اسے ایسا کرنے سے منع کرتا اور وہ جواب میں یہ کہتا کہ اگر اللہ چاہتا تو میں ایسا نہ کرتا۔ تو یہ مظلوم کسی بھی صورت میں اس ظالم و فاجر کی یہ دلیل قبول نہ کرے، اور نہ دوسرے لوگ ہی اس دلیل کو مانیں ۔ یہ تو اس ظالم نے ملامت ہٹانے کے لیے دلیل بنائی ہے جس کی کوئی وجہ نہیں ۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے ان مشرکوں سے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس بات کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرو کہ یہ شرک و تحریم اللہ نے کرنے کو کہا ہے اور اس کا فعل مناسب ہے۔ تم تو اپنے گمانوں کے پیرو کار ہو۔ تمہارے پاس اس کا کوئی علم نہیں ۔ تم بس اٹکل کے تیر چلاتے اور افتراء پردازی ہی کرتے ہو۔ تمہاری سب سے عمدہ دلیل صرف تمہارا گمان اور ظن ہے۔ ناکہ رب تعالیٰ کی مشیئت اور قدرت۔ کیونکہ صرف قدرت اور مشیئت نہ دلیل ہے اور نہ کسی کی کسی پر حجت ہے، اور کسی کا کسی کے سامنے عذر ہے۔ کیونکہ قدر و تقدیر میں سب لوگ ایک ہیں ۔ اگر قدرت و مشیئت دلیل بنے تو ظالم اور مظلوم، صادق اور کاذب، عالم اور جاہل اور نیک اور بد میں سرے سے کوئی فرق ہی نہ رہے، اور نہ اس بات میں ہی کوئی فرق رہے کہ لوگوں کے لیے کیا صالح اور کیا مفسد ہے، اور کیا نافع اور کیا ضار ہے۔ یہ مشرک جو توحید و ایمان کو اور اللہ اور اس کے رسول کو ترک کرنے کے لیے تقدیر کو حجت بناتے ہیں ، خود اپنے حقوق سے اس دلیل کو سن کر دست بردار ہونے کے لیے ہر گز بھی تیار نہیں ، اور نہ اس دلیل کی رو سے کسی کا ظلم سہنے کو ہی تیار ہیں ۔ بلکہ ظلم کے خلاف اور اپنے حق کے لیے لڑنے تک کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں اس بات کی دعوت دی کہ وہ اللہ کے اس حق کو ادا کریں جو بندوں پر واجب ہے اور وہ اللہ کے امر کو بجا لائیں تو ان لوگوں نے بھی تقدیر کو آڑ بنایا اور اللہ کے حق کے ترک پر اور اس کے امر کی مخالفت پر تقدیر کو حجت بنایا اور جو بات پسند نہ تھی اسے تقدیر کی آڑ میں قبول نہ کیا۔ صحیحین میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا: ’’اے معاذ! کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ اس کا بندوں پر یہ حق ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔اور کیا تو جانتا ہے کہ جب بندے یہ کر لیں تو اللہ پر ان کا حق کیا ہے؟ بندوں کا اس پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔‘‘[1] تقدیر کو حجت و جاہل لوگ پکڑا کرتے تھے جن کے پاس اس بات کا کوئی علم نہ ہوا کرتا تھا کہ کرنا کیا ہے اور کیا ترک کرنا ہے۔ وہ صرف ظن کے پیروکار تھے۔ اٹکل کے تیر چلاتے تھے۔ وہ تقدیر کو صرف اللہ کے حق کے ترک میں اور اس کی نافرمانی پر جسارت میں حجرت بناتے تھے، ناکہ اپنے حق کے ترک میں اور دوسرے کا ظلم سہنے میں ، اور نہ اپنے امر کی مخالفت میں ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ نام نہاد درویش، صوفیاء، عوام، مجاہد اور فقہاء وغیرہ ظن کی پیروی اور خواہش نفس کی اتباع کے وقت تقدیر کی طرف دوڑتے تھے۔ اگر ان کے پاس علم و ہدایت ہوتی تو کبھی بھی تقدیر کو حجت نہ بناتے۔ ہاں علم و
Flag Counter