Maktaba Wahhabi

368 - 645
چڑھے اور اعلان کیا : ’’ دو قسم کے متعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلال تھے؛ میں ان سے منع کرتا ہوں ۔ اور ایسا کرنے والوں کو سزا دو ں گا ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔ [جواب]: اس رافضی سے کہا جائے گا کہ: حج تمتع کے جواز پر تمام ائمہ اسلام کا اتفاق ہے۔یہ دعوی کرنا کہ اہل سنت نے حج تمتع کی حرمت کی بدعت گھڑ لی ؛یہ ان پر جھوٹا الزام ہے۔بلکہ اکثر علماء اہل سنت حج تمتع کو یا تو واجب کہتے ہیں اور اسے ترجیح دیتے ہیں یا پھر اسے مستحب سمجھتے ہیں ۔تمتع ایک جامع نام ہے جو ان لوگوں کو شامل ہے جو کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرلیں اور پھر اسی ایک سفر میں حج بھی کریں ‘خواہ اس نے عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوکردوبارہ حج کا احرام باندھا ہو یا پھر بیت اللہ کا طواف شروع کرنے سے قبل حج کی نیت کرلی ہوتو اس کا حج قران ہوجائے گا۔ یا پھر طواف کے بعد صفاومروہ کے مابین سعی کرتے ہوئے حلال ہونے سے پہلے اس لیے حج کی نیت کرلی کہ وہ اپنے ساتھ قربانی کا جانور بھی لایا تھا یاپھر مطلق طور پر حج کی نیت کرلی۔اور بسا اوقات تمتع سے مراد حج کے مہینوں میں عمرہ کرلینا بھی لیا جاتا ہے ۔ اکثر علماء جیسے امام احمد بن حنبل اور دیگر فقہاء حدیث رحمہم اللہ ؛اور امام ابو حنیفہ اور دیگر فقہائے عراق رحمہم اللہ ؛ اور ایک قول میں امام شافعی اور دیگر فقہائے مکہ رحمہم اللہ ؛ حج تمتع کو مستحب کہتے ہیں ۔ اگرچہ ان میں ایسے بھی ہیں جو کہ حج قران کو ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ۔اور بعض فقہاء بالخصوص حج تمتع کو ترجیح دیتے ہیں ؛جیسا کہ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ سے ایک قول میں منقول ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ سے صراحت کے ساتھ منقول ہے کہ : اگر حاجی اپنے ساتھ قربانی لیکر آیا ہے تو پھر اس کے حق میں حج قرآن افضل ہے۔اور اگر قربانی ساتھ نہیں لایا تو پھر عمرہ کے بعد احرام کھول کر حلال ہوجانا ہے افضل ہے۔اس لیے کہ حج قران خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ اور حج تمتع کا اپنے صحابہ کرام میں سے ان لوگوں کو حکم دیا تھا جواپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لائے تھے۔‘‘[1] ٭ بلکہ بہت سارے علمائے اہل سنت والجماعت ایسے بھی ہیں جو حج تمتع کو واجب کہتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا گیا ہے؛ اہل جیسے امام ابن حزم وغیرہ کا یہی قول ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کاحکم دیا تھا۔ ٭ جب اہل سنت والجماعت حج تمتع کے جواز پر متفق اوریک زبان ہیں اور اکثر لوگ اسے مستحب کہتے ہیں ؛ اور ان میں ایسے بھی ہیں جو حج کی اس قسم کوواجب کہتے ہیں ۔تو اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اہل سنت پر حج تمتع کے حرام ہونے کی بدعت ایجاد کرنے کا الزام لگارہے ہیں ‘ وہ اپنے اس قول میں سخت جھوٹے ہیں ۔ ٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جو نقل کیا گیا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ : تصور کیجیے : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بات کہہ دی ؛
Flag Counter