Maktaba Wahhabi

335 - 645
دیگر محدثین کو ہشام بن حکم و ہشام بن سالم اور ان کے ہم نوا روافض کے ہم پلہ ہیں ، یہ انتہائی ظلم ہے۔ اسی طرح جو شخص یہ کہے کہ مسئلہ تقدیر کا انکار کرنے والے شیعہ مثلاً النغمی، کراجکی اور ان کے نظائر و امثال معتزلی علماء مثلاً ابو علی، ابو ہاشم، قاضی عبدالجبار اور ابو حسین بصری کے ہم رتبہ ہیں اس کا ظالم ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے، یہ معتزلہ کے اکابر علماء ہیں ۔ اس ضمن میں اہل سنت علماء کا تو نام لینا ہی مناسب نہیں ، مثلاً متکلمین اہل اثبات میں سے محمد بن ہیصم اور قاضی ابوبکر بن الطیب اور حدیث و فقہ اور تصوف کے علماء مثلاً ابو حامد اسفرائنی، ابوزید مروزی، ابو عبد اﷲ بن بطہ، ابوبکر عبد العزیز ، ابوبکر رازی، ابو الحسین قدوری، ابو محمد بن ابو زید، ابوبکر ابہری، ابوالحسین دار قطنی؛ ابو عبداﷲ بن مندہ، ابوالحسن بن سمعون، ابو طالب مکی، ابو عبدالرحمن السلمی اور ان کے امثال وہ ہمنوا دوسرے علمائے کرام رحمہم اللہ وغیرہم ۔ تحقیق کرنے پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اہل سنت کے مختلف و متعدد فرقوں میں سے ہر فرقہ شیعہ کی نسبت علم و عدل سے قریب تر اور ظلم و جہل سے بعید تر ہے۔ بفرض محال اگر اہل سنت کے کسی فرقہ نے ظالم کی اعانت کا ارتکاب کیا ہے تو شیعہ اس جرم کے ارتکاب میں [ہر موڑ پر ]ان سے دو قدم آگے ہی ہوں گے۔ اور اگر شیعہ نے کبھی ظلم و تعدی سے اجتناب کیا ہے تو اہل سنت اس میدان میں بھی کئی قدم آگے ہوں گے۔یہ بات تجربہ و مشاہدہ پر مبنی ہے اور اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں ، یہ حقیقت ہے کہ اسلامی فرقوں میں شیعہ سے زیادہ جھوٹا اور زیادہ ظالم و جاہل دوسرا کوئی فرقہ نہیں ، لطف یہ ہے کہ شیعہ کے شیوخ و علماء نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے وہ لکھتے ہیں : ’’اے گروہ اہل سنت! تم میں جوان مردی کے آثار پائے جاتے ہیں ، تم پر قابو پانے کی صورت میں ہم تم سے ہر گز وہ سلوک نہیں کر سکتے جو تم عندالقدرت ہم سے روا رکھتے ہو۔‘‘ تیرھواں جواب:....شیعہ نے جس شعر کو پسند کیا اور اس سے استشہاد کیا ہے وہ اس کے ناظم کی جہالت کا مظہر ہے، اہل سنت اس بات کو تسلیم کرتے ہیں :’’رَوٰی جَدُّہُمْ عَنْ جِبْرِیْلَ عَنِ الْبَارِی‘‘اس سے بڑھ کر اہل سنت اقوال رسول پر بلا توقف عمل پیرا ہوتے ہیں اور یہ دریافت کرنے کی مطلقاً ضرورت نہیں سمجھتے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ قول کہاں سے اخذ کیا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو معصوم سمجھتے ہیں ۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾ (النجم:۳۔۴) ’’وہ اپنی مرضی سے نہیں بولتا، بلکہ وہ تو وحی ہے جو آپ کی جانب بھیجی جاتی ہے۔‘‘ اہل سنت کو اہل سنت کہا ہی اس لیے جاتا ہے کہ وہ سنت کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہ بات ضرور ہے کہ سنت کے اثبات کے لیے ثقہ راویوں کی ضرورت ہے ۔قطع نظر اس سے کہ روایت کرنے والا حضرت علی کی اولاد میں سے ہو تو اس سے بھی استفادہ کرتے ہیں ‘ یا کوئی اور شخص صرف ہو تو اس کے بھی علم سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اتنی بات ہر گز کافی نہیں کہ کوئی روایت محض ’’ عَنْ جِبْرِیْلَ عَنِ الْبَارِی ‘‘کے بل بوتے پر بلا تحقیق مان لی جائے۔ایسے لوگوں کا کیا کیا جائے ؟ یہ بات محتاج بیان نہیں کہ امام مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی بات صرف اس لیے حجت مانی جاتی ہے کہ وہ
Flag Counter